روحانی ارتقاء

اصلاح برائے سالکین ِ روحانیت روحانی ترقی کا مقصد یہ ہے کہ ہر  وہ شخص جو کسی نہ کسی روحانی  مقام پر ٹھرا ہوا ہے ، اور کسی مدد کا متلاشی ہے کہ وہ جس مقام پر ہے وہاں سے آگے بڑھ کر یا اُس سے بھی آگے کے مقام پر بڑھ کر اپنا روحانی سفر شروع کر سکے۔ یہ بات  واضح طور پر عرض کر دی جائے کہ ہمارے نزدیک روحانی مقامات میں بلند ترین مقام مقامِ عبدیت ہے اور یہ قربِ الٰہی کا مقام ہے۔ اور ہر مسلمان کو یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ ترقی کرتے کرتے اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی اس قابل ہو سکے کہ وہ اِس مقام  کو پا سکے۔ ایک توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں جب بھی روحانی مقامات کی بات مذید پڑھیں

مراقبہ اسمِ ذات اللہ

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتب میں علم تصور اسمِ اللہ ذات کے اسرار و رموز کو کھول کر بیان فرمایا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے اپنی کتب میں بعض مقامات پر تصور اسمِ اللہ ذات کو علمِ اکسیر اور تصورِ توفیق کے نام سے بھی موسوم کیا ہے۔ تصور اسمِ اللہ ذات تمام باطنی علوم کا معدن و مخزن ہے۔ اس سے باطن میں دو اعلیٰ ترین مقامات دیدارِ حق تعالیٰ اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل ہوتے ہیں جو کسی دوسرے ذکر فکر سے حاصل نہیں ہو سکتے۔ باطن میں ان سے اعلیٰ اور کوئی مقام نہیں۔  اسمِ اللہ ’’اسمِ ذات‘‘ ہے اور ذاتِ سبحانی مذید پڑھیں

خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ

آپؒ کا نام حسن اور القابات معین الدین، معین الاولیاء، خلیفۃ الرسول فی الہند، ہندُ الولی، شہنشاہِ مشائخ، سلطان العارفین، برہان العاشقین، شیخ الاسلام، غریب نواز، سلطان الہند، نائب رسول فی الہند، صدرِ بزمِ چشتیاں وغیرہ ہیں۔ آپؒ حسنی و حسینی ہیں، آپؒ کا سلسلہ نسب ۱۳ویں پشت میں امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیؓ سے جا ملتا ہے۔ آپؒ علاقہ سَجِستان میں ۵۳۷ھ بمطابق ۱۱۳۹ء میں عالمِ شہود میں تشریف لائے۔ اِسی لیے بعض تذکرہ نویسوں نے آپؒ کو سجزی کہا ہے، عموماً حسن سجزی معروف ہیں۔ آپؒ نے گیارہ سال تک نہایت ناز و نعم میں پرورش پائی۔ والدِ بزرگوار انتقال فرما گئے مذید پڑھیں

شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ

حیات و تعلیمات             شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہؒ عالمِ با عمل، اور متبعِ شریعت ولی اللہ تھے ۔ آپؒ کی ولایت اور مقام ومرتبہ خود آپؒ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے۔ان کا پورا نام عبدالقادر بن ابو صالح عبداللہ بن جنکی دومت الجیلی (الجیلانی) ہے اور آپ کی کنیت ابو محمد، لقب محی الدین اور شیخ الاسلام ہے۔ آپؒ حنبلی مسلک کے پیروکار تھے ۔[سیر اعلام النبلاء]اور آپ کے عقائد اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد تھے۔  وہ بزبانِ خود فرماتے ہیں :ہمارا عقیدہ وہی ہے جو تمام صحابۂ کرامؓ اور سلفِ صالحینؒ کا ہے۔ [سیر اعلام النبلاء]               آپؒ والدہ کی طرف سے حسینی مذید پڑھیں

اقسامِ صوفیہ

بعض نے صوفیہ کو تین اقسام میں منقسم کیا ہے:۔  صوفی  متصّوف مستصوف ان کی تشریح مختصر الفاظ میں کچھ اسطرح بیان کی جاتی ہے کہ۔ صوفی :۔ صاحبِ وصول ہے جو مقتضیات طبائع سے آزاد ہو کر حقیقت سے پیوستہ ہو گیا ہو اوراپنی ذات سے فانی ہو کر حق سے باقی ہو۔ متصوف: صاحبِ اصول ہے جو مجاہدہ سے مرتبہ وصول تک پہونچنے کی کوشش میں مصروف ہو ۔ مستصوف: صاحبِ فضول ہے جس نے دنیا کمانے کے لئے صوفیوں کی سی صورت بنا رکھی ہو مگر کمالاتِ  صوفیہ میں سے کوئی حصّہ نہ حاصل کیا ہو۔ علاوہ تقسیمِ متزکرہ بالا کے اور بھی نام ہیں جن سے صوفیہ پکارے جاتے ہیں مثلاً ملا متیہ اور قلندر۔ ملامتیہ: صوفیہ مذید پڑھیں

تصوف و معرفت

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (سورۃ عنکبوت )" یعنی جن لوگوں نے کہ مجاہدہ کیا ہماری راہ میں یقیناً ہم دکھا دیں گے ان کو راہ اپنی۔  اس وعدہ پر اعتمادِ کلّی کے ساتھ صوفی مجاہدہ کرتے ہیں اور ہدایت پاتے ہیں۔ ہدایت کا انحصار ہے شرح صدر پر اور شرح صدر کا نتیجہ ہیں وہ انوار الٰہی جو غیب سے  قلب پر وارد ہوتے ہیں۔ ان انوارِ الٰہی کی برکت سے اور حکمت کی بدولت جو زہدفی الدنیا اور قلتِ کلام کی وجہ سے سینہ میں ابلتی ہے صوفی منجانب اللہ وہ بصیرت پاتے ہیں جس سے اور لوگ محروم ہوتے ہیں اور انھیں وہ فہم و ادراک عطا ہوتا ہے مذید پڑھیں

اسمِ صوفی اور تصوف

اسم صوفی بعد کی چیز ہے لیکن یہ اسم جس بات پر دلالت کرتا ہے وہ بعد کی چیز نہیں ۔  پیغمرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ کسی کو صوفی کہتے تھے نہ عالم نہ حافظ نہ قاری، نہ فقیہ نہ محدث نہ مفسر ۔ اُس زمانہ کی بڑی صفت یہی تھی کہ حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہو، جسے یہ صحبت نصیب ہوئی  ، وہ صحابی ہوا اور یہ ہی وہ بڑا وصف تھا جس سے اس دور کے لوگ ممتاز تھے اور اس نام سے وہ پکارے جاتے تھے۔ بعد کے دور میں سب سے بڑی خوبی یہ ٹھہری کہ صحابہ کرام کی صحبت نصیب ہو، چنانچہ اس دور کے لوگوں کا نام تابعی ہوا۔  اس کے بعد کے دور میں بڑی صفت اور خوبی یہ ہوئی کہ مذید پڑھیں

علم وعمل و احسان

احکامِ الہٰی کے علم کے بغیر عمل نہیں اور عمل کے بغیر علم بے سود ہے اور علم و عمل دونوں بِلا احسان کے ناقص ہیں۔ جب تک صدق توجہ نہ ہوگی عمل سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا، اور جب تک عمل سود مند سر زد نہ ہوگا علم کا مقصد حاصل نہ ہوگا۔ اس لئے اِحسان کا علم وعمل سے وہ تعلق ہے جو جان کا جسم سے ہوتا ہے۔ چنانچہ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :۔ " مَنْ تَصوَّفَ و لَمْ يَتَفقَّهْ فقد تزندق، ومَنْ تفقَّهْ ولَمْ يتصوَّفْ فقد تفسَّقَ، وَمَنْ جَمَعَ بينهما فقد تَحقَّقَ " یعنی جو صوفی بنا  اور علم سے بے بہرہ رہا  زندیق ہوا اور جس نے عِلم دین حاصل کیا مگرتصوف حاصل نہ مذید پڑھیں

حَقَائقِ تصوف

تصوف کی اصل ہے احسان جو عبارت ہے صدق توجہ الی اللہ سے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کی ان الفاظ میں تعریف فرمائی ہے " اَن تَعبُدَ اللہَ کَاَنَّک تَراهُ، فَاِن لَم تَکُن تَراهُ فَاِنَّهُ یَراکَ "(یعنی یہ کہ عبادت کرے تو خُدا گویا  کہ تو اُسے دیکھتا ہے پس اگر نہیں دیکھ سکتا تُو اس کو پس تحقیق وہ دیکھتا ہے تجھ کو) وہ تمام علوم اور اعمال اور احوال جو رجوع الی اللہ کے لئے ضروری یا مفید ہیں تصوف کے تحت میں آتے ہیں۔ اور تصوف کے جمیع معانی راجع ہیں طرف اسی اصل کے جسے اصطلاحِ شریعت میں اِحسان کہتے ہیں۔ جملہ کمالاتِ ظاہری و باطنی کی اصل ہے دل کو ماسوائے مذید پڑھیں
error: Content is protected !!