بعض نے صوفیہ کو تین اقسام میں منقسم کیا ہے:۔
صوفی
متصّوف
مستصوف
ان کی تشریح مختصر الفاظ میں کچھ اسطرح بیان کی جاتی ہے کہ۔
صوفی :۔
صاحبِ وصول ہے جو مقتضیات طبائع سے آزاد ہو کر حقیقت سے پیوستہ ہو گیا ہو اوراپنی ذات سے فانی ہو کر حق سے باقی ہو۔
متصوف: صاحبِ اصول ہے جو مجاہدہ سے مرتبہ وصول تک پہونچنے کی کوشش میں مصروف ہو ۔
مستصوف: صاحبِ فضول ہے جس نے دنیا کمانے کے لئے صوفیوں کی سی صورت بنا رکھی ہو مگر کمالاتِ صوفیہ میں سے کوئی حصّہ نہ حاصل کیا ہو۔
علاوہ تقسیمِ متزکرہ بالا کے اور بھی نام ہیں جن سے صوفیہ پکارے جاتے ہیں مثلاً ملا متیہ اور قلندر۔
ملامتیہ: صوفیہ مذید پڑھیں اقسامِ صوفیہ
بعض نے صوفیہ کو تین اقسام میں منقسم کیا ہے:۔
صوفی
متصّوف
مستصوف
ان کی تشریح مختصر الفاظ میں کچھ اسطرح بیان کی جاتی ہے کہ۔
صوفی :۔
صاحبِ وصول ہے جو مقتضیات طبائع سے آزاد ہو کر حقیقت سے پیوستہ ہو گیا ہو اوراپنی ذات سے فانی ہو کر حق سے باقی ہو۔
متصوف: صاحبِ اصول ہے جو مجاہدہ سے مرتبہ وصول تک پہونچنے کی کوشش میں مصروف ہو ۔
مستصوف: صاحبِ فضول ہے جس نے دنیا کمانے کے لئے صوفیوں کی سی صورت بنا رکھی ہو مگر کمالاتِ صوفیہ میں سے کوئی حصّہ نہ حاصل کیا ہو۔
علاوہ تقسیمِ متزکرہ بالا کے اور بھی نام ہیں جن سے صوفیہ پکارے جاتے ہیں مثلاً ملا متیہ اور قلندر۔
ملامتیہ: صوفیہ مذید پڑھیں 
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (سورۃ عنکبوت )" یعنی جن لوگوں نے کہ مجاہدہ کیا ہماری راہ میں یقیناً ہم دکھا دیں گے ان کو راہ اپنی۔ اس وعدہ پر اعتمادِ کلّی کے ساتھ صوفی مجاہدہ کرتے ہیں اور ہدایت پاتے ہیں۔ ہدایت کا انحصار ہے شرح صدر پر اور شرح صدر کا نتیجہ ہیں وہ انوار الٰہی جو غیب سے قلب پر وارد ہوتے ہیں۔ ان انوارِ الٰہی کی برکت سے اور حکمت کی بدولت جو زہدفی الدنیا اور قلتِ کلام کی وجہ سے سینہ میں ابلتی ہے صوفی منجانب اللہ وہ بصیرت پاتے ہیں جس سے اور لوگ محروم ہوتے ہیں اور انھیں وہ فہم و ادراک عطا ہوتا ہے
اسم صوفی بعد کی چیز ہے لیکن یہ اسم جس بات پر دلالت کرتا ہے وہ بعد کی چیز نہیں ۔ پیغمرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ کسی کو صوفی کہتے تھے نہ عالم نہ حافظ نہ قاری، نہ فقیہ نہ محدث نہ مفسر ۔ اُس زمانہ کی بڑی صفت یہی تھی کہ حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہو، جسے یہ صحبت نصیب ہوئی ، وہ صحابی ہوا اور یہ ہی وہ بڑا وصف تھا جس سے اس دور کے لوگ ممتاز تھے اور اس نام سے وہ پکارے جاتے تھے۔ بعد کے دور میں سب سے بڑی خوبی یہ ٹھہری کہ صحابہ کرام کی صحبت نصیب ہو، چنانچہ اس دور کے لوگوں کا نام تابعی ہوا۔ اس کے بعد کے دور میں بڑی صفت اور خوبی یہ ہوئی کہ
تصوف کی اصل ہے احسان جو عبارت ہے صدق توجہ الی اللہ سے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کی ان الفاظ میں تعریف فرمائی ہے " اَن تَعبُدَ اللہَ کَاَنَّک تَراهُ، فَاِن لَم تَکُن تَراهُ فَاِنَّهُ یَراکَ "(یعنی یہ کہ عبادت کرے تو خُدا گویا کہ تو اُسے دیکھتا ہے پس اگر نہیں دیکھ سکتا تُو اس کو پس تحقیق وہ دیکھتا ہے تجھ کو) وہ تمام علوم اور اعمال اور احوال جو رجوع الی اللہ کے لئے ضروری یا مفید ہیں تصوف کے تحت میں آتے ہیں۔ اور تصوف کے جمیع معانی راجع ہیں طرف اسی اصل کے جسے اصطلاحِ شریعت میں اِحسان کہتے ہیں۔
جملہ کمالاتِ ظاہری و باطنی کی اصل ہے دل کو ماسوائے