تصوف و معرفت

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (سورۃ عنکبوت )" یعنی جن لوگوں نے کہ مجاہدہ کیا ہماری راہ میں یقیناً ہم دکھا دیں گے ان کو راہ اپنی۔  اس وعدہ پر اعتمادِ کلّی کے ساتھ صوفی مجاہدہ کرتے ہیں اور ہدایت پاتے ہیں۔ ہدایت کا انحصار ہے شرح صدر پر اور شرح صدر کا نتیجہ ہیں وہ انوار الٰہی جو غیب سے  قلب پر وارد ہوتے ہیں۔ ان انوارِ الٰہی کی برکت سے اور حکمت کی بدولت جو زہدفی الدنیا اور قلتِ کلام کی وجہ سے سینہ میں ابلتی ہے صوفی منجانب اللہ وہ بصیرت پاتے ہیں جس سے اور لوگ محروم ہوتے ہیں اور انھیں وہ فہم و ادراک عطا ہوتا ہے مذید پڑھیں

اسمِ صوفی اور تصوف

اسم صوفی بعد کی چیز ہے لیکن یہ اسم جس بات پر دلالت کرتا ہے وہ بعد کی چیز نہیں ۔   پیغمرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ کسی کو صوفی کہتے تھے نہ عالم نہ حافظ نہ قاری، نہ فقیہ نہ محدث نہ مفسر ۔ اُس زمانہ کی بڑی صفت یہی تھی کہ حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہو، جسے یہ صحبت نصیب ہوئی  ، وہ صحابی ہوا اور یہ ہی وہ بڑا وصف تھا جس سے اس دور کے لوگ ممتاز تھے اور اس نام سے وہ پکارے جاتے تھے۔ بعد کے دور میں سب سے بڑی خوبی یہ ٹھہری کہ صحابہ کرام کی صحبت نصیب ہو، چنانچہ اس دور کے لوگوں کا نام تابعی ہوا۔  اس کے بعد کے دور میں بڑی صفت اور خوبی یہ ہوئی کہ مذید پڑھیں
error: Content is protected !!