اقسامِ صوفیہ

بعض نے صوفیہ کو تین اقسام میں منقسم کیا ہے:۔  صوفی  متصّوف مستصوف ان کی تشریح مختصر الفاظ میں کچھ اسطرح بیان کی جاتی ہے کہ۔ صوفی :۔ صاحبِ وصول ہے جو مقتضیات طبائع سے آزاد ہو کر حقیقت سے پیوستہ ہو گیا ہو اوراپنی ذات سے فانی ہو کر حق سے باقی ہو۔ متصوف: صاحبِ اصول ہے جو مجاہدہ سے مرتبہ وصول تک پہونچنے کی کوشش میں مصروف ہو ۔ مستصوف: صاحبِ فضول ہے جس نے دنیا کمانے کے لئے صوفیوں کی سی صورت بنا رکھی ہو مگر کمالاتِ  صوفیہ میں سے کوئی حصّہ نہ حاصل کیا ہو۔ علاوہ تقسیمِ متزکرہ بالا کے اور بھی نام ہیں جن سے صوفیہ پکارے جاتے ہیں مثلاً ملا متیہ اور قلندر۔ ملامتیہ: صوفیہ مذید پڑھیں

علم وعمل و احسان

احکامِ الہٰی کے علم کے بغیر عمل نہیں اور عمل کے بغیر علم بے سود ہے اور علم و عمل دونوں بِلا احسان کے ناقص ہیں۔ جب تک صدق توجہ نہ ہوگی عمل سے کوئی فائدہ حاصل نہہوگا، اور جب تک عمل سود مند سر زد نہ ہوگا علم کا مقصد حاصل نہ ہوگا۔ اس لئے اِحسان کا علم وعمل سے وہ تعلق ہے جو جان کا جسم سے ہوتا ہے۔ چنانچہ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :۔ " مَنْ تَصوَّفَ و لَمْ يَتَفقَّهْ فقد تزندق، ومَنْ تفقَّهْ ولَمْ يتصوَّفْ فقد تفسَّقَ، وَمَنْ جَمَعَ بينهما فقد تَحقَّقَ " یعنی جو صوفی بنا  اور علم سے بے بہرہ رہا  زندیق ہوا اور جس نے عِلم دین حاصل کیا مگرتصوف حاصل نہ کیا مذید پڑھیں

حَقَائقِ تصوف

تصوف کی اصل ہے احسان جو عبارت ہے صدق توجہ الی اللہ سے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کی ان الفاظ میں تعریف فرمائی ہے " اَن تَعبُدَ اللہَ کَاَنَّک تَراهُ، فَاِن لَم تَکُن تَراهُ فَاِنَّهُ یَراکَ "(یعنی یہ کہ عبادت کرے تو خُدا گویا  کہ تو اُسے دیکھتا ہے پس اگر نہیں دیکھ سکتا تُو اس کو پس تحقیق وہ دیکھتا ہے تجھ کو) وہ تمام علوم اور اعمال اور احوال جو رجوع الی اللہ کے لئے ضروری یا مفید ہیں تصوف کے تحت میں آتے ہیں۔ اور تصوف کے جمیع معانی راجع ہیں طرف اسی اصل کے جسے اصطلاحِ شریعت میں اِحسان کہتے ہیں۔ جملہ کمالاتِ ظاہری و باطنی کی اصل ہے دل کو ماسوائے مذید پڑھیں
error: Content is protected !!