حَقَائقِ تصوف

تصوف کی اصل ہے احسان جو عبارت ہے صدق توجہ الی اللہ سے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کی ان الفاظ میں تعریف فرمائی ہے “ اَن تَعبُدَ اللہَ کَاَنَّک تَراهُ، فَاِن لَم تَکُن تَراهُ فَاِنَّهُ یَراکَ “(یعنی یہ کہ عبادت کرے تو خُدا گویا  کہ تو اُسے دیکھتا ہے پس اگر نہیں دیکھ سکتا تُو اس کو پس تحقیق وہ دیکھتا ہے تجھ کو) وہ تمام علوم اور اعمال اور احوال جو رجوع الی اللہ کے لئے ضروری یا مفید ہیں تصوف کے تحت میں آتے ہیں۔ اور تصوف کے جمیع معانی راجع ہیں طرف اسی اصل کے جسے اصطلاحِ شریعت میں اِحسان کہتے ہیں۔

جملہ کمالاتِ ظاہری و باطنی کی اصل ہے دل کو ماسوائے اللہ سے پاک رکھنا اور محبوبِ حقیقی کے سوائے کسی کا اپنے دل میں گزر نہ ہونے دینا، جب محبوبِ حقیقی اپنے بندہ کے خانہ دل میں آباد ہو جاتا ہے، تو اس محبوب کے سارے خزانے اور اس کا سارا جاہ و جلال اور اس کی قدرت و عظمت غرضیکہ وہ سب کچھ جو محبوبِ حقیقی کا ہے ، بندہ کے دل میں اُتر آتا ہے اور بندہ اپنی ذات اور صفات سے فنا ہو کر حق تعالیٰ کی ذات و صفات سے زندہ اور باقی ہو جاتا ہے ۔ تو گویا تصوف نام ہے اس زینہ کا جس پر چڑھ کر انسان جملہ کمالاتِ صوری و معنوی کی معراج پر سرفراز ہوتا ہے اور اس دنیا میں حیات مستعار لے کر اپنے آنے کے مقصد کو کماحقہ پورا کرتا ہے۔

error: Content is protected !!