اسمِ ذات اللہ

اسمِ ذات اللہ ۔ ذاتی نام ہے اور اس قدر با معنی ہے کہ ایک ایک حرف علیحدہ کر لینے سے بھی بے معنی نہیں رہتا۔ بلکہ اپنی ذات کی صفات ظاہر کرتا ہے۔  اللہ کا پہلا حرف حذف کر دیجئے  تو  لِلہِ رہ جاتا ہے ۔  جس کے معنی ہیں  “اللہ ہی کے لئے” یعنی اس کے ذاتی نام کے اندر اس کی ملکیت  موجود ہے۔

لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ

(زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ ہی کی ہے)

ہر چیز کے واصف ہونے کا بھی اسمِ ذات میں ثبوت موجود ہے۔

يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ

(زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے)

للہ سے پہلا حرف یعنی اللہ کا پہلا حرف حذف کر دیجئے  (ل ل ہ) تو  “لہ” رہ جاتا ہے (اسی کے لئے) اسم اللہ کے اندر  “لہ” لفظ  (ضمیر ) کی دلالت کرتا ہے۔

لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ

(زمین و آسمان کی بادشاہی اسی کی ہے)

لَهُ المُلكُ ولهُ الحَمْدُ

(بادشاہی بھی اسی کی ہے ، اور تعریف ، حمد و ثنا بھی اسی کے لئے ہے)

لہ (ل ہ ) سے  “ل” علیحدہ کیجئے  تو “ہ” باقی رہا۔  معنی اس کے ہیں (اسی کا) یا (وہی) ۔

لا اِلَہ الّا ھُو

(نہیں کوئی معبود لیکن وہی)

مالک المُلک کا ذاتی نام  اللہ کتنا با معنی نام ہے ۔ سبحان اللہ ہم نے اوّل سے بلترتیب حروف حذف  کئے تو باقی رہنے والا لفظ  با معنی رہا۔  اب ہم آخر سے ایک ایک حرف بلترتیب  حذف کرتے ہیں۔

(ا ل ل ہ ) اللہ

آخری حرف “ہ” حذف کر دیجئے تو الل (ا ل ل) موجود ہے۔  (“الل” کسی چیز کو نوکدار یا دھاردار بنانا) اللہ تعالیٰ نے قلم کو نوکدار بنا کر اس کو لوح پر بات لکھنے کا حکم دیا۔

ن ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ

(قلم اور اس کے لکھے کی قسم)

الل (ال ل ) سے دوسرا آکری حرف حذف کریں  تو “ال” رہ جاتا ہے۔  یہ لفظ تعریف کے لئے بولا جاتا ہے۔ نکرہ کو معرفہ بناتا ہے۔  کریم  (سخی عام صفت ہے) الکریم اب اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام بن گیا۔ اس ہی لئے ہر نام حسنٰی سے پیشتر  “ال” لگایا جاتا ہے۔ 

ال” تمام کے معنی بھی دیتا ہے۔ اس ہی سے تصوف کا مسئلہ وحدت الوجود کا ہے کہ تمام کائنات اسم ذات اللہ میں مدغم ہے۔ چھپی ہوئی ہے۔ اور اس ہی نام اللہ سے ساری کائنات ظاہر ہے۔ ہر ظاہر و باطن کا مالک ہے۔اور وہی خود ظاہر و باطن ہے۔

الف تمام زبانوں کا پہلا حرف ہے اور زبانوں کو پیدا کرنے والا اللہ رب العزت ہے۔ جس کی شان ھوالاوّل ہے۔ یعنی وہی پہلا ہے۔ اول کا پہلا حرف الف ہے۔ جو اس  چیز پر دلالت کرتا ہے کہ الف ہی اول کے لفظ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اور”  ھوالاٰخر”  میں پھر آخر کا پہلا حرف الف ہے جو اس چیز پر دلالے کرتا ہے کہ وہی آخر ہے۔ یعنی الف کے معنی ہیں “ھوالاول و الآخر” وہی اول ہے وہی آخر۔

اول اور آخر کا پہلا حرف الف ہے اور اللہ کا پہلا حرف بھی الف ہے۔ تو معنی یہ ہوئے کہ اللہ ہی اول وآخر ہے ۔ اور چونکہ ہر زبان کا حرف اول الگ ہے تو معلوم ہوا کہ اللہ ہی مبتدی ہے۔ یعنی ہر چیز کی ابتداء فرمانے والا ہے۔

اسم ذات اللہ کے چار حروف    “ ا ل ل ہ  ” ہیں اور اسم ذات اللہ کے اعداد ۶۶ ہیں۔ اسم اللہ ، کیونکہ اسم ذات ہے اس لئے اس کے خواص، برکات اور اثرات اتنے بے شمار ہیں کہ جن کے بیان کرنے اور لکھنے کی کسی میں طاقت نہیں ہے۔

error: Content is protected !!