اللہ تعالیٰ فرماتا ہے “وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (سورۃ عنکبوت )” یعنی جن لوگوں نے کہ مجاہدہ کیا ہماری راہ میں یقیناً ہم دکھا دیں گے ان کو راہ اپنی۔ اس وعدہ پر
اعتمادِ کلّی کے ساتھ صوفی مجاہدہ کرتے ہیں اور ہدایت پاتے ہیں۔ ہدایت کا انحصار ہے شرح صدر پر اور شرح صدر کا نتیجہ ہیں وہ انوار الٰہی جو غیب سے قلب پر وارد ہوتے ہیں۔ ان انوارِ الٰہی کی برکت سے اور حکمت کی بدولت جو زہدفی الدنیا اور قلتِ کلام کی وجہ سے سینہ میں ابلتی ہے صوفی منجانب اللہ وہ بصیرت پاتے ہیں جس سے اور لوگ محروم ہوتے ہیں اور انھیں وہ فہم و ادراک عطا ہوتا ہے جو اوروں کی پہنچ سے بالا تر ہے۔ اس بصیرت و فہم و ادراک کی بدولت کشف حقائق اور رموز معرفت کی جو بارش عالم قدس سے ان پر ہوتی ہے وہ بلاشبہ اُن ہی کا حصہ ہے جس میں غیر کو دخل نہیں۔ پس صوفیائے کرام حدود الٰہی پرتجاوز نہیں کرتے۔ بلکہ اپنی مصیرت پر لوگوں کو مدعو کرتے ہیں اور “ أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي” کہنے والوں کے زمرے میں داخل ہوتے ہیں۔
