اسمِ صوفی اور تصوف

اسم صوفی بعد کی چیز ہے لیکن یہ اسم جس بات پر دلالت کرتا ہے وہ بعد کی چیز نہیں ۔   پیغمرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ کسی کو صوفی کہتے تھے نہ عالم نہ حافظ نہ قاری، نہ فقیہ نہ محدث نہ مفسر ۔ اُس زمانہ کی بڑی صفت یہی تھی کہ حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہو، جسے یہ صحبت نصیب ہوئی  ، وہ صحابی ہوا اور یہ ہی وہ بڑا وصف تھا جس سے اس دور کے لوگ ممتاز تھے اور اس نام سے وہ پکارے جاتے تھے۔ بعد کے دور میں سب سے بڑی خوبی یہ ٹھہری کہ صحابہ کرام کی صحبت نصیب ہو، چنانچہ اس دور کے لوگوں کا نام تابعی ہوا۔  اس کے بعد کے دور میں بڑی صفت اور خوبی یہ ہوئی کہ تابعین کی صحبت نصیب ہو اس لئے ان کا نام تبع تابعین ہوا۔

ان تینوں زمانوں کے بعد جب اسلام دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلا اور فتنوں کا بھی دور شروع ہوا اور  بدعات پھیلنے لگیں ، تو اہل حق کے گروۃ نے اپنے کو صوفی سے ممتاز کیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم  کی ظاہری اور باطنی پیروی میں اپنے کو مستحکم رکھا اور بلا خوفِ لومتہ لائم دین کی خدمت اور اس کے فیضان و انتشار میں منہمک رہے۔

لفظ صوفی دوسری صدی ہجری کے اختتام سے قبل شہرت پا چکا تھا۔ حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :۔

کہ اگر ابو ہاسم صوفی نہ ہوتے تو ہم دقائق ریا کو نہ پیچانتے۔

مغالطہ

بعض لوگ اس مغالطہ میں مبتلا ہیں کہ تصوف ایک جدا گانہ شئے ہے۔ جسے اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر یہ مغالطہ لا علمی یا قلتِ معلومات یا کج فہمی کا نتیجہ ہے۔

تصوف کلیتہً اسلام ہے ، اسلام کی روح ہے، اسلام کا حسن و جمال ہے اسلام کا کمال ہے۔

error: Content is protected !!