اہلِ تصوف کی ایک بڑی تعداد، جن میں خانوادہ چشتیہ، سلسلہ نقشبندی مجددی، سلسلہ اوایسیہ اور صوفیائے شاذلیہ وغیرہ شامل ہیں، کا یہ طرز عمل رہا ہے کہ بغیر موکلات تسبیحات عمل میں لاتے ہیں۔ اگر اسماء الحسنٰی، قرآنی آیات و سورۃ، دورد و شریف اور دیگر مسنون اذکار کی تسبیح و چلہ مقصود ہو تو صرف بلا موکل کی تسبیحات کو ترجیح دیتے ہیں تا کہ اوصافِ حمیدہ، لطائفِ قلبی اور نفسِ مطمئنہ کے ذریعے اپنی روحانی استطاعت کو بڑھا کر ایسے مقام پر پہنچا جائے تا کہ خاص فضل و کرم اور انوار حاصل ہوں اور موکلات و دیگر مخلوق خود ہی کام پر آمادہ ہو۔ اسطرح عمل سے موکلات کے معائنہ کے وقت مذید پڑھیں جنات و موکلات
اہلِ تصوف کی ایک بڑی تعداد، جن میں خانوادہ چشتیہ، سلسلہ نقشبندی مجددی، سلسلہ اوایسیہ اور صوفیائے شاذلیہ وغیرہ شامل ہیں، کا یہ طرز عمل رہا ہے کہ بغیر موکلات تسبیحات عمل میں لاتے ہیں۔ اگر اسماء الحسنٰی، قرآنی آیات و سورۃ، دورد و شریف اور دیگر مسنون اذکار کی تسبیح و چلہ مقصود ہو تو صرف بلا موکل کی تسبیحات کو ترجیح دیتے ہیں تا کہ اوصافِ حمیدہ، لطائفِ قلبی اور نفسِ مطمئنہ کے ذریعے اپنی روحانی استطاعت کو بڑھا کر ایسے مقام پر پہنچا جائے تا کہ خاص فضل و کرم اور انوار حاصل ہوں اور موکلات و دیگر مخلوق خود ہی کام پر آمادہ ہو۔ اسطرح عمل سے موکلات کے معائنہ کے وقت مذید پڑھیں 
مستند عاملین و کاملین نے کتب میں چلہ کشی کی خاطر جو تفصیلات ترکِ حیوانات کے ضمن میں لکھی ہیں وہ کچھ اسطرح ہیں:۔
ترکِ حیوانات کی دو قسمیں ہیں ۔
جمالی
جلالی
ترکِ حیوانات جمالی میں جن اشیاء کا ترک کرنا مراد ہے اُن میں ، گوشت ہر قسم کا، انڈا، مچھلی ، سرکہ، کچی پکی پیاز، لہسن ، جماع ، نظر بد سے پرہیز وغیرہ ہے۔
ترکِ حیوانات جلالی میں ، گوشت ہر قسم کا، انڈا، مچھلی، سرکہ، کچی پکی پیاز، لہسن ، شہد، مشک ، کشتہ ہر قسم کا ہر وہ اناج جس میں کھاد دیا گیا ہو۔ جماع اور نظر بد سے پرہیز کرنا، کھانا دھات کے برتن میں پکا ہوا نہ کھایا جائے، دھات کا چمچہ بھی اس میں نہ ڈالا جائے،
صحابئ رسول حضرت ابوزید رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ رات کا وقت تھا ، میں پیارے آقا ، مکی مدنی مصطفےٰ صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ مدینۂ منورہ کی ایک گلی سے گزر رہا تھا ، اچانک ایک گھر سے آواز آئی ، ایک صحابی رَضِیَ اللہُ عنہ تہجد کی نماز میں سورۂ فاتحہ کی تلاوت کر رہے تھے ، اسے سُن کر رسولِ اکرم ، نورِ مُجَسَّم صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم ٹھہر گئے اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت سننے لگے ، جب صحابی رَضِیَ اللہُ عنہ نے سورۂ فاتحہ مکمل پڑھ لی تو اللہ پاک کے آخری نبی ، رسولِ ہاشمی صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم
عربی زبان میں رزق کا لفظ جہاں روزی روٹی کے معنی میں آتا ہے وہاں ہر طرح کی عنایات کے لے بھی آتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں بھی یہ مال و دولت کے لیے بھی ہے، متاع حیات کے لیے بھی آیا ہے اور ہدایت و معرفت کے لیے بھی استعمال ہوا ہے ۔ مختصرا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رزق کا لفظ اللہ تعالی کی طرف سے بندوں کو عطا ہونے والی ہر عنایت کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی نے انسان کو بالعموم اور مسلمان کو بالخصوص رزق حلال و حرام میں تمیز کرنے کا حکم دیا ہے،رزق حلال کمانا اور رزقِ حرام سے اجتناب کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ نماز،روزہ ودیگر فرائض پر عمل پیرا ہونا۔۔۔مگر قابلِ تعجب
اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ : الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ.
( سورۃ البقرۃ : ۱۵۶)
ترجمہ: وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں : ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔
اس آیتِ مبارکہ کو پڑھنے کے آداب و طریقے صوفیائے کرام اور اولیائے عظام نے مقرر فرمائے ہیں جس سے لاکھوں انسان فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ آپ کسی بھی مصیبت میں مبتلا ہیں تو ذیل میں دئے گئے طریقے کو بروئے کار لا کر اللہ پر بھروسہ کر کے خلوص دل و نیت کے ساتھ یہ عمل کریں۔ انشاء اللہ تعالیٰ، مسئلہ
مادی جسم کے اندر موجود باطنی انسان ایک جیتا جاگتا وجود ہے جو انسان کی توجہ کا طالب ہے۔ جس طرح مادی جسم کی تندرستی کے لیے صحیح غذا ضروری ہے اسی طرح باطنی وجود کی بھی غذا ہے جس سے وہ سکون محسوس کرتا ہے’ تندرست و توانا ہوتا اور قوت حاصل کرتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ط (الرعد۔28)
ترجمہ: بے شک ”ذکر اللہ” سے ہی قلوب کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے۔یعنی اللہ کے اسم کے ذکر سے انسانی قلب یا روح کو سکون حاصل ہوتا ہے کیونکہ یہی اس کی غذا اور قوت کا باعث ہے۔ جو انسان اس ذکر سے روگردانی کرتا ہے اس کی روح
اسمِ ذات اللہ ۔ ذاتی نام ہے اور اس قدر با معنی ہے کہ ایک ایک حرف علیحدہ کر لینے سے بھی بے معنی نہیں رہتا۔ بلکہ اپنی ذات کی صفات ظاہر کرتا ہے۔ اللہ کا پہلا حرف حذف کر دیجئے تو لِلہِ رہ جاتا ہے ۔ جس کے معنی ہیں "اللہ ہی کے لئے" یعنی اس کے ذاتی نام کے اندر اس کی ملکیت موجود ہے۔
لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
(زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ ہی کی ہے)
ہر چیز کے واصف ہونے کا بھی اسمِ ذات میں ثبوت موجود ہے۔
يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ
(زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے)
للہ سے پہلا حرف یعنی اللہ کا پہلا
تمام اسماء الحسنٰی کو ایک ساتھ پڑھنے کا طریقہ
و للہ الاسمآء الحسنیٰ فادعوہ بھا
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے بہت اچھے نام ہیں اسے انہی ناموں سے پکارا کرو۔
اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚاَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ اَلْمُؤمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِ یْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ؕسُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ۔ترجمۂ کنزالایمان:وہی ہے اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہ نہایت پاک سلامتی دینے والا، امان بخشنے والا، حفاظت فرمانے والا، عزت والا، عظمت والا، تکبر والا، اللہ کو پاکی