استخارہ کے لغوی معنی ہیں : کسی معاملے میں خیر اور بھلائی کا طلب کرنا، یعنی روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے اپنے جائز کام میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور اللہ سے اس کام میں خیر، بھلائی اور رہنمائی طلب کرنا۔
جبکہ استخارے کے اصطلاحی معنی کے اعتبار سے ” کسی بھی معاملہ کی خیر اور انجام کی بہتری کا سوال کرنا یا پھر دو کاموں میں سے ایک کام کو اختیار کرنے یا چھوڑ دینے میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا۔
استخارہ کرنا ایک مسنون عمل ہے، جس کا طریقہ اور دعا نبی پاک ﷺ سے احادیث میں منقول ہے۔ حضور اکرم ﷺ ، حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کر ہر کام سے پہلے اہمیت کے ساتھ استخارے کی تعلیم دیا کرتے تھے، حدیث کے الفاظ پر غور فرمایئے:
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)۔
ترجمہ :جب تم میں سے کوئی شخص کسی بھی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے۔
عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعلمنا الاستخارة فی الامور کلھا کما یعلمنا سورة من القرآن (ترمذی)۔
ترجمہ :حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو تمام کاموں میں استخارہ اتنی اہمیت سے سکھاتے تھے جیسے قرآن مجید کی سورت کی تعلیم دیتے تھے ۔
استخارہ کا مسنون اور صحیح طریقہ
سنت کے مطابق استخارہ کا سیدھا سادہ اور آسان طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت (بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو)دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ کرے کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔
سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی وہ مسنون دعا مانگیں جو حضور صلى الله عليه وسلم نے تلقین فرمائی ہے، یہ بڑی عجیب دعا ہے ،اللہ جل شانہ کے نبی ہی یہ دعا مانگ سکتے ہے اور کسی کے بس کی بات نہیں ، کوئی گوشہ زندگی کا اس دعاء میں نبی ﷺ نے چھوڑا نہیں ، اگر انسان ایڑی چوٹی کا زور لگا لیتا تو بھی ایسی دعا کبھی نہ کرسکتا جو نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے تلقین فرمائی ،اگرکسی کو دعا یاد نہ ہو توکوئی بات نہیں کتاب سے دیکھ کریہ دعا مانگ لے ،اگر عربی میں دعا مانگنے میں دقت ہورہی ہو تو ساتھ ساتھ اردو میں بھی یہ دعا مانگے، بس ! دعا کے جتنے الفاظ ہیں، وہی اس سے مطلوب ومقصود ہیں ، وہ الفاظ یہ ہیں:
استخارہ کی مسنون دعا
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ ․
اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاقْدِرْہُ لِیْ ، وَ یَسِّرْہُ لِیْ ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ ․
وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ ، وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہ․
(بخاری،ترمذی)
دعاکرتے وقت جب ”ہذا الامر “پر پہنچے (جس کے نیچے لکیر بنی ہے) تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”ہذا الامر “کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلا ”ہذا السفر “یا ”ہذا النکاح “ یا ”ہذہ التجارة “یا ”ہذا البیع “کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”ہذا الأمر “ہی کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے اور دھیان دے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے۔
شادی اور استخارہ
رشتہ کا معاملہ عام معاملات سے الگ ہے ،ہم نے دیکھا کہ موجودہ دور میں، لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کر لیتے ہیں اور بجائے والدین کو آگاہ
کئے خود ہی کسی جگہ سے استخارہ کروا لیتے ہیں، گویا اپنی زندگی کا فیصلہ بنا بزرگوں کی مشاورت کے کرنے لگتے ہیں۔ جو بھی کام خلافِ شریعت کیا جائے، اُس میں خیر نہیں ہو سکتی۔ یہ والدین کا کام تھا کہ اپنی اولادوں کو اصولِ دین سے روشناس کرواتے، اُن کو شریعت کی پابندی کی جانب راغب کرتے۔ تاکہ اولاد کو یہ علم ہو کہ زندگی کے اہم معاملات میں دین کی پیروی لازمی ہے۔
یہ صرف اولاد کا کام نہیں بلکہ والدین کا کام بھی ہے ، صحیح رشتہ کا انتخاب والدین ہی کرسکتے ہیں ، یہ ان کی ذمہ داری ہے اور ان کومستقبل کے حوالے سے سوچنا پڑتا ہے کہ کہاں رشتہ کریں ؟اس لیے بہتر یہ ہے کہ جن لڑکوں یا لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ ہے وہ خود بھی استخارہ کرلیں اور اگر ان کے والدین زندہ ہوں تو وہ بھی کرلیں۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ جب کسی لڑکا یا لڑکی کا رشتہ آئے تو دونوں جانب کے والدین اپنے طور پر ایک ہی جگہ سے استخارہ نکلوائیں ۔
رسول اکرم ﷺ نے خصوصاً شادی کے موقع پر استخارہ کرنے کی تعلیم دی۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:۔
“بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پیغام کے ارادے (یعنی پیغام نکاح) کو لوگوں پر ظاہر نہ کرو۔ پھر وضو کرو اور اچھے طریقے سے وضو کرو اور نماز پڑھو ، جو اللہ نے تمھارے لئے لکھی ہے پھر اپنے رب کی تعریف کرو اور اس کی بزرگی بیان کرو۔ پھر کہو ، اے اللہ ! بے شک تو قدرت رکھنے والا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو ہی تمام غیبوں کا خوب جاننے والا ہے۔ پس اگر تیرے نزدیک اس رشتہ میں جس کا نام فلاں ہے (رشتہ کا نام لیں) میرے دین، میری دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے (تو اسے میرا مقدر کر دے) اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور میرے دین ، دنیا اور آخرت کے اعتبار سے بہتر ہے تو اس کا میرے حق میں فیصلہ کر دے۔ یا فرمایا :میرا مقدر بنا دے” (مسند احمد)۔
آداب و شرائط
استخارہ خود کریں ۔ کسی اور سے استخارہ کروانا نہیں چاہیئے۔ استخارہ ایک دفعہ کریں لیکن اگر دل کی تسلی نہ ہو رہی ہو تو زیادہ مرتبہ بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ دعاہے اور دعا میں کثرت پسندیدہ عمل ہے۔
استخارہ کر کے سونا ضروری نہیں اسی طرح خواب کا آنا لازمی نہیں ہے۔
دعائے استخارہ کے بعد باتیں کریں یا نہ کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
استخارہ کے لئے کوئی وقت مخصوص نہیں جب بھی کسی معاملہ کا فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آئے (مکروہ اوقات کے علاوہ) استخارہ کر سکتے ہیں۔
ہر اختیاری کام میں استخارہ کیا جا سکتا ہے۔ البتہ فرائض میں استخارہ نہیں ہوگا۔
حرام ، مکروہ اور غیب کے امور کا پتہ لگوانے کے لئے استخارہ نہیں کیا جا سکتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس گیا اور اس کی باتوں کی تصدیق کی تو ان نے نبی ﷺ پر نازل کردہ تعلیمات کا کفر کیا”۔ (مسند احمد)
استخارہ کرنے کے بعد صبر سے کام لیتے ہوئے معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ اگر اس کام میں خیر ہوگی تو وہ آسان ہو جائے گا اور اگر شر ہو گا تو اللہ تعالیٰ اس سے بچا لے گا اور بہتر چیز سامنے لے آئے گا۔
ہم گناہ گار ہیں! استخارہ کیسے کریں ؟
انسان کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو، بندہ تو اللہ ہی کا ہے اور جب بندہ اللہ سے مانگے گا تو جواب ضرور آئے گا،جس ذات کا یہ فرمان ہوکہ” ادعونی استجب لکم“ مجھ سے مانگو میں دعا قبول کروں گا ۔ تویہ اس عظیم وکبیر ذات کے ساتھ بد گمانی ہے، وہ ذات تو ایسی ہے کہ شیطان جب جنت سے نکالاجارہا ہے راندہ درگاہ کیا جارہا ہے تواس وقت شیطان نے دعا کی، اللہ نے اس کی دعا کو قبول فرمایا، جو شیطان کی دعا قبول کررہا ہے کیا وہ ہم گناہ گاروں کی دعا قبول نہ کرے گا اور جب کوئی استخارہ رسول اللہ کی اتباع سنت کے طور پر کرے گا تو یہ ممکن نہیں کہ اللہ دعا نہ سنے بلکہ ضرور سنے گا اور خیر کو مقدر فرمائے گا،اللہ کی بارگاہ میں سب کی دعائیں سنی جاتی ہیں ، ہاں یہ ضرور ہے کہ گناہوں سے بچنا چاہیے تاکہ دعا جلد قبول ہو ۔
لوگوں میں بکثرت یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ گناہ گار استخارہ نہیں کرسکتے، یہ دو وجہ سے باطل اور غلط ہے
پہلی وجہ یہ کہ گناہوں سے بچنا آپ کے اختیار میں ہے ، مسلمان ہو کر کیوں گناہ گار ہیں؟ گناہ صادر ہوگیا تو صدق دل سے توبہ کرلیجیے ، بس گناہوں سے پاک ہوگئے ، گناہ گار نہ رہے ، نیک لوگوں کے زمرے میں شامل ہوگئے ، توبہ کی برکت سے اللہ تعالی نے پاک کردیا ، اب اللہ کی اس رحمت کی قدر کریں اور آئندہ جان بوجھ کر گناہ نہ کریں۔
دوسری وجہ یہ کہ استخارہ کے لیے شریعت نے تو کوئی ایسی شرط نہیں لگائی کہ استخارہ گناہ گار انسان نہ کرے، کوئی ولی اللہ کرے ، جو شرط شریعت نے نہیں لگائی آپ اپنی طرف سے اس شرط کو کیوں بڑھاتے ہیں؟ شریعت کی طرف سے تو صرف یہ حکم ہے کہ جس کی حاجت ہو وہ استخارہ کرے خواہ وہ گناہ گار ہو یا نیک ، جیسا بھی ہو خود کرے ، عوام یہ کہتے ہیں کہ استخارہ کرنا بزرگوں کا کام ہے تو بزرگ حضرات بھی سمجھنے لگے کہ ہاں! یہ صحیح کہہ رہے ہیں ، استخارہ کرنا ہمارا ہی کام ہے ،عوام کا کام نہیں ، عوام کو غلطی پر تنبیہ کرنے کی بجائے خود غلطی میں شریک ہوگئے ، ان کے پاس جو بھی چلا جائے یہ پہلے سے تیار بیٹھے ہیں کہ ہاں لائیں ! آپ کا استخارہ ہم ”نکال دیں گے “اور استخارہ کرنے کو ”استخارہ نکالنا“کہتے ہیں ،یاد رکھیں یہ ایک غلط روش ہے اوراس غلط روش کی اصلاح فرض ہے۔
استخارہ کا مفصل طریقہ ہم نے لکھ دیا ہے۔ تمام ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی کے ہر مسئلے میں استخارہ خود کرنے کی عادت ڈالیں۔ اپنے مسائل سوائے رب العزت کے کہیں اور نہ بیان کریں۔ اور اللہ عزوجل کی رضا میں راضی رہنے کی عادت بنائیں۔
