علم الرمل کی تعریف

مولانا الحاج محمود علی  صاحب شفق رامپوری اپنی مایہ ناز تصنیف “علم الرمل”  میں اِس معتبر علم کی تعریف کچھ اسطرح بیان کرتے ہیں کہ ۔۔۔واضح ہو کہ علم الرمل نہایت شریف  اور صحیح اور بزرگانِ دین سے منقول ہے۔ بعض اصحاب اسے علم سماوی کہتے ہیں اور اس علم کو علومِ انبیاء میں سے جانتے ہیں۔ اور بعض نے اسے حضرت آدم ؑ  سے اور بعض نے حضرت دانیال ؑ سے منسوب کیا ہے۔ اور بعض کے نزدیک حضرت نوح ؑ سے اور بعض نے حضرت ادریس ؑ سے منسوب کیا ہے۔ لیکن وجہ تنزلِ علم سب یکساں ہے۔ یعنی جب ان پیغمبروں میں سے کسی پیغمبر کو اپنی اولاد یا بعض حالات معلوم کرنے کی احتیاج ہوئی تو بارگاہِ احدیت میں التجا کی کہ الٰہی کوئی ایسا علم عطا فرما جس سے ہم واقعات یا اپنی اولاد کی حالت معلوم  کر سکیں۔ تو حضرت جبرئیل ؑ بحکم خداوند تعالیٰ تشریف لائے اور چار انگلیاں ریت پر گاڑ کر چار نقطے  پیدا کئے۔ اور ان چار نقطوں سے تمام  علم کی تفصیلاً تعلیم دی۔ چونکہ رمل عربی میں ریت کو کہتے ہیں  اور اِ س علم کی پہلی مشق جبرئیل علیہ السلام نے ریت پر ہی کرائی تو اِس لئے یہ علم رمل کے نام سے منسوب و معروف اور مشہور ہوا۔

اس ہی طرح راقم الحروف نے مذید تحقیق کی تو جناب ” عبد الرحیم رند مرحوم ” اپنی مشہور و معروف کتاب “رحیم الرمل” میں علم الرمل کی تعریف کچھ اسطرح بیان فرماتے ہیں کہ۔۔۔اس مقدس علم کی سند اکثر کتبِ علومِ روحانی سے یہ ملتی ہے کہ اس علم کو ابتداءً حضرت آدم علیہ السلام پر خالقِ کائنات نے بذریعہ وحی نازل فرمایا۔ اور آپ علیہ السلام کے بعد حضرت ادریس علیہ السلام  کو ورثہ ملا ۔ اور جناب سید امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اس کے متعلق فرمایا۔ اس کے بعد حضرت دانیال علیہ السلام نے اس پر عمل فرمایا۔ آپ علیہ السلام کے ذریعہ یہ علم مشہور ہوا ۔

اہلِ روحانیت کے نزدیک یہ علم متبرک سمجھا گیا اور منجانب رب العلا انبیاء پر نازل ہوا اس لئے اعتقاداً سچا علم جانا گیا ہے۔ پس جو آدمی اس کے اصول و قواعد کے مطابق اس پر عمل کریگا صواب کے علاوہ اس کا حساب صحیح اور سچا ثابت ہوگا۔ اور لوگوں کی بھلائی ، مشکل کشائی ہوگی۔  علم الرمل کے اسرار و رموز بہت گہرے ہیں ۔ جو آدمی اپنے مذژہب پر قائم نہیں رہتا اس  علم پر اپسے کبھی دسترس حاصل نہیں ہوگی۔

راقم الحروف نے اب تک جس قدر کتب ِ رمل کا مطالعہ کیا ہے اُن کے مطابق اِس علم کو حضرت دانیال علیہ السلام سے ہی زیادہ تر منسوب پایا ہے۔  کہتے ہیں ۔۔۔ جب بحکم  رب العالمین جبرئیل امین علیہ السلام نے آکر اپنی چار انگلیاں ریت پر رکھیں جن سے چار نقطہ وجود میں آئے۔۔تو   اُن چار نقاط سے جو شکل برآمد ہوئی  اس شکل کو ابو الرمل کہتے ہیں اور ان چاروں نقوطوں کو چار عنصر سے نسبت دیکر اطراف پر منقسم کیا۔ اس تفصیل سے نقطہ اول آتشی  شرقی، نقطہ دوم بادی غربی، نقطہ سوم آبی شمالی اور نقطہ چہارم خاکی جنوبی کا وجود ہوا۔  اس شکل کو فی نفسہ ضرب دیکر سولہ اشکال برآمد ہوئیں  اور اسطرح فال سے احوال کل اولاد کا دریافت کیا۔ کہ کون کس جانب اور کس حال سے ہے۔

تاہم یہ تمام باتیں مایہ ناز کتب میں ماہرین و استادوں نے تحریر فرمائی ہیں۔ راقم الحروف اس کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔ کیوں کہ خاکسار کے نزدیک تواریخ کا جائزہ لینا اتنا اہم نہیں جتنا اُس علم  کے اصول و قواعد کو بروئے کار لا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا ہے۔

علم الرمل کو انگریزی میں Geomancy کہا جاتا ہے۔ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ اس میں بھی جدت آگئی ہے۔ ہر زمانے کے اہل علم حضرات نے اپنے قوانین رائج کئے اور بے شمار تجربات و مشاہدات کے بعد اس کے قوانین کو بنایا اور اپنے شاگردوں کو سکھائے۔ لیکن یہ تنبیہ بھی کردی گئی کہ اِس علم کو ہر کس و ناکس تک نہ پہنچایا جائے۔ صرف اہل حضرات کو ہی تعلیم دی جائے۔ اور یہ بات دیگر علوم جیسے علم الجفر و الاعداد اور علم النقوش میں بھی رائج ہے۔
علم الرمل کو بروئے کار لانے والے کو “رمال” یعنی Geomancer کہا جاتا ہے۔ علم الرمل سے کشید کئے گئے فالنامے کو اکثر کتب میں “زائچہ” کہا گیا، جس سے ہمیں اختلاف ہے ۔ زوائچ میں سوال کے علاوہ تواریخ،۔ ماہ و سال اور وقت کا تعین ضروری سمجھا جاتا ہے، مگر اصولِ رمل میں “قرعہ” یعنی Geomancy Dice پھینک کر اشکال کو ترتیب دیا جاتا ہے اور پھر احکام لگائے جاتے ہیں۔
تاہم کسی بھی علم کو جاننے والا جب ایک عرصہ دراز تک مشق کرتا رہتا ہے تو اُس کے سامنے نئے طریق بھی کھُل جاتے ہیں۔
اہلِ علم اور اہلِ روحانیت اِس بات سے واقف ہیں کہ علم میں خود بھی ایک زندگی پائی جاتی ہے، وہ اپنے جاننے والے سے مانوس ہو جائے تو اسرار و رموزعیاں کر دیتا ہے۔
یہ ہی تمام معاملات علم الحروف و اعداد اور علم الجفر کے ساتھ ہیں۔
بظاہر یہ قیاسی علوم ہیں۔ مگر جب صدقِ دل سے اصول و قواعد کی پابندی کے ساتھ ان علوم سے انسیت کا رشتہ قائم ہوتا ہے تو علم کے روحانی و باطنی اسرار اُس کے جاننے والے کے  subconscious mind  میں آشکار ہونے لگتے ہیں۔ اور ہر سوال کا جواب ایک وجدانی کیفیت سے ملنے لگتا ہے۔
error: Content is protected !!