علم الحروف کے تعریف میں مرشدانِ کرام و استادانِ علم و کاملین نے فرمایا ہے کہ یہ اٹھائیس حروف نام باری تعالیٰ کے ہیں۔ فرشتے ان ناموں سے
اللہ سبحان و تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے قلم کو حکم دیا کہ جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے سب کا سب لوح پر لکھ ۔ قلم نے سر لوح پر رکھ دیا جس سے ایک نورانی نقطہ ظاہر ہوا۔ پھر وہ نقطہ دراز ہو کر الف بن گیا۔ یہی بھید اس کے نورانی ہونے کا سبب ہے۔ اسمِ “اللہ ” کی ابتداء بھی اس ہی حرف الف سے ہے۔ اہلِ علم کے مطابق دیگر علوم کے ساتھ علم الحروف بھی حضرت آدم علیہ السلام کو تعلیم کیا گیا۔ اکابرین کے مطابق سب سے پہلے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے حروف تہجی کو حروف مقطعات کی شکل میں بالکل الگ طور پر نازل فرمایا۔
حروف مقطعات حروفِ تہجی ہی ہیں۔ اور یہی ان کی یہی ان کی بہت بڑی اہمیت اور وقعت ہے۔
جاننا چاہیئے کہ حروف لفظوں کے امام ہیں۔ اور حروف کے اپنے مراتب ہیں۔ جو انسان، جنات، نباتات اور جمادات کے لئے مخسوص ہیں۔ ہر حرف کا اپنا ایک الگ عدد ہے جو ابجد کے حساب سے مشہور ہے۔ حروف کے بھی قطب، امام، اوتاد، اور ابدال ہیں۔ مثلاً الف حروف کا قطب ہے اور واؤ اور یا دو امام ہیں۔ ماہرینِ روحانیات نے ہر حرف کا ایک خاص رنگ، تاثیر اور اس میں ایک خاص طاقت کا ذکر کیا ہے۔
کہا جاتا ہے اہلِ علم نے حروف کو لکھ کر روحانی نگاہ سے دیکھا تو انھیں الف کا رنگ سرخ اور با کا رنگ نیلا نظر آیا، پھر ان کے اثرات کا جائزہ لیا۔ تو بعض الفاظ کے پڑھنے سے بیماریاں جاتی رہیں۔ بعض سے بچھو کے ڈنگ کا علاج ہوا، الہامی الفاظ اور اسمائے الٰہی میں اتنی طاقت ہے کہ ورد سے ہماری پریشانیاں اور بیماریاں دور ہو جاتی ہیں۔ الفاظ کی یہ طاقت اصل حروف میں ہوتی ہے۔
حضرت سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی اکثر کتب میں حروف تہجی کو نقوش اور دائروں کے طور پر درج کیا ہے۔حروفِ تہجی کے اسرار و رموز پر متقدمین علماء اور فلاسفہ نے اپنی اپنی تصانیف میں بہت کچھ تحریر فرمایا ہے۔
علم الحروف سے متعلق بہت کم لوگوں کو آگہی ہے۔ اور نہ ہی کسی نے اس پر تحقیق کی کوشش کی۔ اگر کہیں کوئی مواد نظر سے گزر بھی جائے تو تشنگی باقی رہ جاتی ہے۔ اہلِ روحانیات نے اس پر کلام کیا ہے ، اور اہلِ علم نے اس کے اعمال بھی تحریر فرمائے ہیں۔ لیکن اس علم پر زیادہ کام کرنے کی کوشش نہیں کی جبکہ یہ بنیادی اور سب سے قوی الاثر علم ہے۔ عام طور پر اعمال و وملیات پر مواد کتب کی زینت بنا رہا جو کہ مختلف اشکال والے طلسمات پر مبنی ہوتا تھا یا آیاتِ قرآنی کو نقوش کی صورت میں آویزاں کر کے استعمال میں لانے تک محدود ہے۔
دستورِ دنیا ہے کہ جس کام میں تجسس رکھ دیا جائے اُس کو حاصل کرنے کی جد و جہد میں لگت رہیں گے مگر بنیادی اور آسان طریق پر عمل کرنے پر توجہ نہیں دیں گے۔
علم الحروف میں اس قدر تاثیر ہے کہ بڑے بڑے عملیات معمولی نظر آتے ہیں اور ہمہ قسم کے امراض دور کرنے کے لئے عام طور پر صرف دس حروف بطور حروف شفا استعمال ہوتے ہیں۔ ان حروف کو حروف ِ دافع علت بھی کہا جاتا ہے۔ جو کہ یہ ہیں ۔۔۔
اب ت ث ط ظ ف ک ل ی ۔ ان کے اعداد 1943 ہیں۔ ماہرینِ حروف صرف ان ہی حروف سے طلسم تیار کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں ۔ یہ عربی حروف جن شکلوں میں سامنے آرہے ہیں یا جو آواز پیدا ہو رہی ہے وہ خالقِ کائنات کی طرف سے ہے اور ایک تحفہ ہے۔
کہتے ہیں حروف کی آوازیں حضرت آدم علیہ السلام کے قلبِ اقدس پر منعکس ہوئیں اور بعد میں مختلف صوتی صورتوں میں آپ کی اولاد میں رائج ہوئیں۔
اہلِ علم فرماتے ہیں کہ حروف کا فیضان حاصل کرنے میں اولیاء امت اور اکابرِ دین ہر زمانے میں کوششیں کرتے رہے ہیں۔ اور مخلوقِ خدا کی مشکلات دور کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ان اٹھائیس حروف تہجی کا عمل کشف ِ باطن اور حصول ِ مقاصد میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اگر ان کو قدرت کے خزانوں کی کنجیاں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ حروف کی مدد سے بیماریوں کی تشخیص و علاج، تسخیرِ خلق و محبوب و مطلوب ، دافع دشمن وغیرہ جیسے مسائل کا حل ممکن ہے۔ نیز حروف پر مبنی عملیات ، تعویذات، نقوش و الواح اور طلسمات وغیرہ بھی تیرِ بہدف ہوتے ہیں۔
