السلامُ
عیوب سے پاک
سلام کے معنی ہیں عیوب سے پاک ، یعنی رب تعالیٰ ذاتی و صفاتی عیوب سے منزہ و مبرہ ہے۔ بعض علماء نے یہ معنی بھی بیان کئے ہیں کہ مخلوق میں اہل
ایمان کو سلامتی دامن بخشے۔ بقولِ حضرت ابو مظہر علی اصغر چشتی صابری علیہ الرحمہ ، سلام کے معنی تمام جہان کو سلامتی بخشنے والا یا یوں کہئے کہ دنیا میں جملہ مخلوق کو سلامتی بخشنے والا اور آکرت میں اہلِ ایمان کو اپنے فضل کے ساتھ امن دینے والا اور عدل کے ساتھ مشرکین و کفار کو عذاب کرنے والا۔
مشائخ سے یہ بات منقول ہے کہ بندے کو چاہیئے کہ وہ اپنے خالق و مالک کو سلامتی کا پیکر سمجھتے ہوئے اس کی عبادت کرے۔ ایسا کرنے سے اس کی اپنی ذات میں بھی سلامتی کے جوہر پیدا ہونگے۔ اور اس کی ذات بھی سلامتی کا گہوارہ بنے گی۔ تب ہی اُسے بندگی کا اعلیٰ مقام عطا ہوگا۔
اکابرین نے فرمایا ہے کہ جو شخص روزانہ ۱۳۱ مرتبہ یا سلامُ کا ورد کرے گا وہ تمام آفات سے محفوظ رہے گا۔ اور اس میں ذاتی و صفاتی اعتبار سے سلامتی پیدا ہوگی۔
اگر کسی مریض پر ۱۳۱ مرتبہ السّلامُ پڑھ کر دم کیا جائے تو مریض بفضلِ خداوندی شفا پائے گا۔
بزرگوں نے حضرت امام بونیؒ سے نقل کیا ہے کہ مرض شدید میں جب کہ اطباء نے مایوسی کا اظہار کر دیا ہو، مریض کے سرہانے بیٹھ کر ایک تسبیح یَا سَلامُ یَا اللہ اس طرح پڑھیں کہ تسبیح مریض کے سے سے مس ہوتی رہے۔ تسبیح پوری پونے پر تسبیح کو مریض کے تکیہ کے نیچے رکھ دیا جائے۔ پھر اگلے دن اسی وقت ایک تسبیح پھر اسی طرح پڑھیں اور تین دن تک ایسا ہی کریں۔ انشاء اللہ مرض میں افاقہ ہوگا۔ اور تندرستی حاصل ہو گی۔
جو شخص بعد نماز فجر اس اسم کو ایک ہزار مرتبہ پڑھے گا اسے اللہ کی طرف سے ایسا علم عطاء ہوگا کہ روحانیت میں بلند مقام پا جائے گا۔
اگر دو خاندانوں میں آپس میں لڑائی جھگڑے ہوں اور ان میں صلح کی کوئی صورت نظر نہ آتی ہو تو اس اسمِ مبارک کے نقش کو زعفران سے لکھ کر کسی میٹھی شے میں ملا کر پلائے اور اس اسم کو روزانہ کسی کھانے پینے والی شے میں دم کر کے کھلائے، اللہ کے حکم سے ان کی آپس مین رنجش ختم ہو گی اور یہ صلح کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔
تمام اسماء الحسنٰی کے مخصوص نقوش کے استعمال کے طریقے علماء و اکابرین نے بیان فرمائے ہیں۔ تاہم کسی بھی نقش کے استعمال سےقبل ادب کا تقاضہ ہے کہ کچھ ہدیہ پیش کر کے اُس کی اجازت طلب کی جائے اور بہتر ہوگا کہ اپنے نام اور مقاصد کے اعتبار سے نقش بنوا کر استعمال میں لایا جائے۔ تاکہ فیوض و برکات کا سلسلہ بھی جاری رہے اور عمل کی رجعت سے بھی محفوظ رہا جا سکے۔
