اسمِ ذات اللہ کے مخصوص وظائف و نقش

مادی جسم کے اندر موجود باطنی انسان ایک جیتا جاگتا وجود ہے جو انسان کی توجہ کا طالب ہے۔ جس طرح مادی جسم کی تندرستی کے لیے صحیح غذا ضروری ہے اسی طرح باطنی وجود کی بھی غذا ہے جس سے وہ سکون محسوس کرتا ہے’ تندرست و توانا ہوتا اور قوت حاصل کرتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ  ط (الرعد۔28) 

ترجمہ: بے شک ”ذکر اللہ” سے ہی قلوب کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے۔یعنی اللہ کے اسم کے ذکر سے انسانی قلب یا روح کو سکون حاصل ہوتا ہے کیونکہ یہی اس کی غذا اور قوت کا باعث ہے۔ جو انسان اس ذکر سے روگردانی کرتا ہے اس کی روح کو غذا اور رزق نہیں ملتا جو اس کی زندگی اور قوت کے لیے ضروری ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّ نَحۡشُرُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ  اَعۡمٰی(طٰہٰ۔124)

  ترجمہ: ”بے شک جو ہمارے ذکر سے اعراض کرتا ہے ہم اس کی (باطنی) روزی تنگ کر دیتے ہیں اور قیامت کے روز اسے اندھا اٹھائیں گے۔” 

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے ذاتی اسم اَللّٰہُ کا ذکر دیا ہے کیونکہ یہ اس کی تمام صفات کا احاطہ کرتا ہے اور اس کے تمام اسماء میں سب سے قوت والا اسم اَللّٰہُ ہے۔ اللہ کا یہ اسم اس قدر قوت کا حامل ہے کہ اگر ترازو کے ایک پلڑے میں اسم ”اَللّٰہُ” رکھ دیا جائے اور دوسرے پلڑے میں پوری کائنات’ جنت و جہنم رکھ دیئے جائیں تو اسماَللّٰہُ ذات والا پلڑا بھاری ہوگا۔ اسم اَللّٰہُ ذات کے ذکر سے روح کو وہ نورِ بصیرت حاصل ہوتا ہے جو دیدارِ الٰہی کے لیے لازم ہے۔ روح اس قدر قوی ہوجاتی ہے کہ جسم و جان کے تمام حجابات توڑ کر جسمانی موت سے قبل ہی اللہ کا وصال’ دیدار اور معرفت حاصل کر سکتی ہے۔ چونکہ ذکرِ ” اَللّٰہُ” ہی انسانی مقصدِ حیات یعنی معرفتِ الٰہی کے حصول کی بنیاد ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پہلی وحی اور سب سے پہلا حکم اللہ کے ذاتی نام کے ذکر کا تھا۔

اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ۔(العلق 01)

ترجمہ:پڑھ اپنے ربّ کے نام (اسم اَللّٰہُ) سے جس نے خَلق کو پیدا کیا۔

تمام عبادات کی فرضیت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت اور پیروکاروں کو اسم اَللّٰہُ ذات کے ذکر کا حکم دیا تاکہ ان کی ارواح نور بصیرت حاصل کر کے معرفتِ الٰہی تک رسائی حاصل کریں جو تمام عبادات کی روح اور بنیاد ہے۔ دین کی اس بنیاد کے مضبوط ہونے کے بعد ہی ان پر ظاہری عبادات فرض کی گئیں۔ سورۃ مزمل سورۃ الاعلیٰ’ سورۃ واقعہ’ سورۃ اعراف’ سورۃ کہف اور سورۃ طٰہٰ عبادات فرض ہونے سے پہلے مکہ میں نازل ہوئیں ان تمام میں اللہ کے اسم کے ذکر کا حکم بھی دیا گیا ہے اور طریقہ بھی سمجھایا گیا ہے۔

فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ (سورۃ حاقتہ(مکی):52 سورۃ واقعہ(مکی )96 اور 74 )

ترجمہ: (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) اپنے رَبِّ عظیم کے نام (اسم اَللّٰہُ ) کی تسبیح بیان کرو۔

سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی  (سورۃاعلی۔01)

 ترجمہ:( اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم )اپنے رب کے نام (اسمِ  اَللّٰہُ) کی تسبیح بیان کرو جو سب سے اعلیٰ ہے۔

وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلۡ  اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا  ؕ (مزمل۔8)

ترجمہ: (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) اپنے رب کے نام (اسمِ اَللّٰہُ) کا ذکر کرو اورسب سے ٹوٹ کر اس ہی کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔

اس کے اوراد و وظائف بھی مختلف ہیں اور ان کو پڑھنے کی ترکیبیں بھی متعین ہیں۔

ہر نماز کے بعد بلاناغہ ۶۶ مرتبہ اسم ذات اللہ کا ورد کرے تو نعمتِ جاودانی اور مقاصدِ دوجہانی سے مستفید ہو۔
اگر روزانہ ایک ہزار مرتبہ اس اسم مبارک کا ورد کیا جائے تو پڑھنے والے کے دل میں یقین کی قوت پیدا ہو جاتی ہے۔
ہر نماز کے بعد جو شخص ایک سو مرتبہ پڑھتا ہے اس کا باطن کشادہ ہو جاتا ہے۔اور اسے کشف ہونے لگتا ہے۔
اگر اس اسم پاک کا ورد ایک ہزار ایک سو (۱۱۰۰) مرتبہ روزانہ کیا جائے اور مالدار بن جانے کی نیت سے کیا جائے تو پڑھنے والے کے دلی مقاصد پورے ہو جاتے ہیں۔اور اگر کوئی مجموعی شمار کے اعتبار سے اس کو پڑھنا چاہے تو اس کی تعداد ۱۲۵۰۰۰ ہے۔ سلسلہ چشتیہ صابریہ کے بعض مشائخ نے 24 ہزار مرتبہ روزانہ اس وظیفہ کو پڑھا ہے گو یا کہ ان کا کوئی وقت اس وظیفہ کے پڑھنے سے خالی نہیں رہا ہے۔ تاہم اگر کوئی ضرورت مند اس کی مداومت کرنا چاہئے تو رابطہ کر کےہم سے خاص اجازت لی جا سکتی ہے ۔
اگر کو ئی اس اسم مبارک کو بکثرت پڑھتا رہے تو اس کی دلی مراد پوری ہو جاتی ہے اور بگڑا کام بن جاتا ہے۔
جو شخص جمعہ کی نماز کے بعد عصر سے مغرب تک پڑھے، یا جمعہ سے پہلے تنہائی میں بیٹھ کر دو سو مرتبہ پڑھتا رہے تو اس کی مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ اور دلی تمنا پوری ہو جاتی ہے۔
جو مریض اچھا نہ ہوتا ہو اور ڈاکٹر ، حکیم عاجز آگئے ہوں تو اس اسم کو پڑھ کر مریض پر دم کر دیا جائے ، بشرطیکہ موت نہ آئی، وہ اچھا ہو جاتا ہے۔

تمام اسماء الحسنٰی کے مخصوص نقوش کے استعمال کے طریقے علماء و اکابرین نے بیان فرمائے ہیں۔ تاہم کسی بھی نقش کے استعمال سےقبل ادب کا تقاضہ ہے کہ کچھ ہدیہ پیش کر کے اُس کی اجازت طلب کی جائے اور بہتر ہوگا کہ اپنے نام اور مقاصد کے اعتبار سے نقش بنوا کر استعمال میں لایا جائے۔ تاکہ فیوض و برکات کا سلسلہ بھی جاری رہے اور عمل کی رجعت سے بھی محفوظ رہا جا سکے۔

 

error: Content is protected !!