سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتب میں علم تصور اسمِ اللہ ذات کے اسرار و رموز کو کھول کر بیان فرمایا ہے۔ آپ
رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتب میں بعض مقامات پر تصور اسمِ اللہ ذات کو علمِ اکسیر اور تصورِ توفیق کے نام سے بھی موسوم کیا ہے۔ تصور اسمِ اللہ ذات تمام باطنی علوم کا معدن و مخزن ہے۔ اس سے باطن میں دو اعلیٰ ترین مقامات دیدارِ حق تعالیٰ اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل ہوتے ہیں جو کسی دوسرے ذکر فکر سے حاصل نہیں ہو سکتے۔ باطن میں ان سے اعلیٰ اور کوئی مقام نہیں۔
اسمِ اللہ ’’اسمِ ذات‘‘ ہے اور ذاتِ سبحانی کے لیے خاص الخاص ہے۔ علمائے راسخین کا قول ہے کہ یہ اسمِ مبارک نہ تو مصدر ہے اور نہ مشتق یعنی یہ لفظ نہ تو کسی سے بنا ہے نہ ہی اس سے کوئی لفظ بنتا ہے اور نہ اس اسمِ پاک کامجازاً اطلاق ہوتا ہے جیسا کہ دوسرے اسما مبارک کا کسی دوسری جگہ مجازاً اطلاق کیا جاتا ہے۔ گویا یہ اسمِ پاک کسی بھی قسم کے اشتراک اور اطلاق سے پاک، منزّہ ومبرّا ہے۔ اللہ پاک کی طرح اسمِ اللہ بھی احد، واحد اور لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ ہے۔
اس مراقبے کے کئی ایک طریقے بزرگانِ دین نے ترتیب دئے ہیں مگر ہم یہاں صرف ایک نہایت سہل طریقہ پیش کرتے ہیں۔
آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیں مگر بہتر یہ ہے کہ جس طرح التحیات میں بیٹھتے ہیں ، اُس طرح بیٹھا جائے۔ آنکھیں بند کر لیں۔ اور تین مرتبہ اسم ذات اللہ اللہ اللہ آہستہ آہستہ زبان سے پڑھیں۔ اب زبان کو تالو سے لگا دیجئے اور محسوس کیجئے کہ آپ کا قلب اللہ اللہ اللہ کر رہا ہے۔ اور آپ اس آواز کو اپنے کانوں سے سُن رہے ہیں۔ جتنی دیر چاہین اس مراقبے پر عمل پیرا رہیں۔ جب تھک جائیں تو ختم کر کے اٹھ جائیں۔ مسلسل اس مراقبے پر عمل پیرا ہونے سے واقعی ایک وقت ایسا آتا ہے کہ قلب اللہ اللہ اللہ کہنے لگتا ہے۔ تصوف کی اصطلاح میں اس کو قلب کا جاری ہونا کہتے ہیں۔ اس آواز کو قریب بیٹھا ہوا معمولی سوجھ بوجھ کا انسان بھی جس کا قلب جاری ہو چکا ہو سن سکتا ہے۔قلب جاری ہونے کے بعد مسلسل شب و روز محوِ ذکر اسمِ ذات رہتا ہے تا وقتکہ اس کی روح قفس عنصری سے پرواز نہ کر جائے۔ قلب کا جاری ہونا بھی ایک لدّنی چیز ہے۔ یہ ایک بہت بڑی سعادت ہے جو حق تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔
