دورِ حاضر میں ہر شخص کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا ہے۔ کسی کو روزگار کا مسئلہ ہےتو کہیں شادی میں رکاوٹ، کوئی کاروبار ی بندش کا شکار ہے تو کوئی
آسیبی وقتوں سے نجات کا متلاشی ہے۔ گو کہ لگتا ہے ہر شخص سحر زدہ ہے۔ ہر کسی پر بندش ہے، ہر کسی کا رشتہ دار حسد میں مبتلا ہوکر اُس پر جادو کروا رہا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ ایک چوٹ بھی لگ جائے تو جادو کا گمان ہوتا ہے۔ ہم بھی عجیب ہیں۔ جب کوش ہوتے ہیں تو وہ سب کرتے ہیں جو دل چاہتا ہے، مگر جب مشکلات میں گھِرتے ہیں تو خدا یاد آتا ہے۔ تب استخارے نکلتے ہیں، اور بندشوں اور رکاوٹ کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ پھر تعویذات پہنے جاتے ہیں، اوراد کی مداومت کی جاتی ہے۔ مگر ہمیں پھر بھی شعور نہیں۔ نہ ہم نے کوشش کی، نہ ہم سنورنا چاہتے تھے۔ ہم گمراہی میں خوش رہنا چاہتے ہیں۔
ہم تحقیق سے عاری ہیں۔ ہم آسانیوں کے طلبگار ہیں۔ ہمیں اچھا یا برا جو دیا جائے ہم لے لیتے ہیں، ہمارا ایک ہی مقصد ہے۔ کہ بس ، مسئلہ حل ہونا چاہیئے۔عمل اور تعویذ چاہے کیسا بھی ہو، ہمیں جائز اور ناجائز کی تمیز ہی نہیں۔
یہ بات جاننا اشد ضروری ہے کہ ہماری مشکلات کی وجہ نا سمجھی میں کیا گیا عمل یا کوئی ایسا تعویذ بھی ہو سکتا ہے تو غیر شرعی ہو۔
ان کی دو صورتیں ہیں ۔ اول ۔ جیسے قرآن پاک میں حروف مقطعات ہیں یا احادیث و بزرگانِ دین سے مروی ہیں ان کے تعویذ بنانا جائز ہے۔ دوئم یہ کہ جو دوسری زبانوں کے ہیں جب تک ان کے معنی کا صحیح علم نہ ہو ان سے تعویذ بنانا جائز نہیں نہ ان کے اعداد نہ الفاظ سے ان کے معنی شر کی کفری ہونے کا احتمال ہے۔
اس ہی لئے جن الفاظ کے معنی خلاف شرع ہوں ان کا ورد کرنا یا تعویذ بنا کر دینا جائز نہیں ہے۔ حضور سرکارِ دو عالم ﷺ کے فرمانِ عالیشان کے مطابق :۔
حضرتِ عوف ابن مالک اشجعی روایت کرتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کرتے تھے ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں عرض کیا ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا “مجھے ان افسوں منتروں کو سناؤ اگر ان میں شرک و کفر نہیں ہے تو جائز ہیں ورنہ حرام و کفر ہونگے”۔ (مسلم)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:۔ “افسوں-ٹونے-تعویز وغیرہ جن میں شر کی کلمات ہوں ان کا عمل کرنا شرک ہے”۔ (مشکوٰۃ)
عملیات و تعویذات پر کتنا یقین ہو؟
اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ عملیات و تعویذات پر اُتنا ہی یقین رکھنا چاہیئے جتنا دوائی پر یقین ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے دوائی سے نقصان کا احتمال بھی ہوتا ہے مگر نوری علم کے تعویذات اور عملیات یا اوراد کی مداومت سے نقصان کا احتمال نہیں ہوتا بلکہ فائدہ کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ کے اسماء یا کلام اللہ کی آیات سے بنائے جاتے ہیں۔ اس کے لئے ضروری یہ بھی ہے کہ اس علم کی چیدہ چیہ باتیں سیکھ کر خود اپنے نام کے اعداد یا کسی اسم مبارکہ کے اعداد نکال کر مداومت کرنا سیکھنا چاہئے ۔
ایک حکایت کے مطابق ایک دن ایک ضعیفہ قطب الاقطاب حضرت بابا فرید الدین گنج شکر نور اللہ مرقدہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ” میں بیوہ ہوں میری بیٹی جوان ہے میں نے اس کی شادی کرنی ہے اور میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے آپ میری مدد کریں “۔ حضرت بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا “مٹی کی ایک ڈلی لاؤ “۔ وہ عورت سمجھی آپ استنجے کے لئے مٹی طلب کر رہے ہیں ، وہ عورت چھوٹی سی ڈلی اُٹھا کر لے آئی۔ بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اس کو ہاتھ میں لیکر سورہ اخلاص تین مرتبہ پڑھ کر مٹی پر دم کر دیا تو وہ مٹی سونے کی ڈلی ہو گئی۔ بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا “مائی اپنی بیٹی کی شادی کر لے”۔
عورت نے کہا ۔ واہ ! کیا بات ہے، سونا بھی ملا اور سونا بنانے کا نسخہ بھی ملا۔
عورت نے گھر جا کر مٹی کا کافی بڑا ڈیلا اپنے سامنے رکھا اور رات بھر سورۃ اخلاص پڑھ کر اس پر دم کرتی رہی صبح کو دیکھا تو وہ مٹی ہی تھی۔ حضرت بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ، بابا جی آپ نے اس مٹی کی ڈلی پر تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ کر دم کر دیا تھا تو وہ مٹی سونا بن گئی تھی میں ساری رات سورہ اخلاص پڑھ کر دم کرتی رہی ہوں تو مٹی سونا نہیں بنی۔ اس کی کیا وجہ ہے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا :۔
“اے مائی تو زبان بھی فرید کی لا”۔
یہ حکایت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اللہ کے ولی کی زبان اور تحریر میں بھی اثر پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کا لکھا با اثر اس کا بولنا با اثر اس کا کوئی فعل اس کا نہیں ہوتا وہ اللہ کا ہوتا ہے۔
تعویذ ات ، نقوش و الواح کی حقیقت
بعض مرتبہ یہ سوال اُٹھتا ہے کہ تعویذ کا کیا حکم ہے؟ اور دم و تعویذ میں کیا فرق ہے؟ سو یاد رکھئے کہ ان میں وہی فرق ہے جو کلامِ الٰہی اور کتاب اللہ میں ہے۔ کتاب اللہ کو لکھا جاتا ہے اور کلام اللہ کو پڑھا جاتا ہے۔ جس طرح ہم کلام اللہ کی عزت کرتے ہیں، ناپاک ہونے کی حالت میں اُسے اپنی زبان پر نہیں لاتے، قرآن کریم کتاب کی صورت میں ہے تو اُسے چھو بھی نہیں سکتے۔ اگر یہ لکھا ہوا قرآن واجب الاحترام نہ ہوتا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ فرماتے کہ جب دشمن کے علاقے میں جاؤتو لکھا ہوا قرآن (مصحف) وہاں نہ لے جاؤ، کہیں دشمن کے ہاتھ لگے اور وہ اس کی بےاحترامی کریں۔
علاج بالقرآن دم سے ہو سکتا ہے تو لکھے ہوئے پاک اور طیب کلمات سے کیوں نہیں ہو سکتا؟! وہاں بھی اس میں تاثیر اذنِ الٰہی سے آتی ہے،اور تعویذ میں بھی حروف و کلمات مؤثر بالذات نہیں، اثر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے ،جب وہ چاہے۔ رہا پاک کلمات کو حروف میں لکھنا تو اس میں ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ان کلمات اور آیات پر دلالتِ لفظی ہو تو یہ وہ صورت ہے جو ہمیں عیاناً (کھلی ہوئی) نظر آتی ہے اور دلالتِ وضعی ہو تو یہ ان کلمات کے حروفِ ابجد ہیں اور ان میں بھی اثر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی آتا ہے، یہ حروف بالذات کوئی اثر نہیں رکھتے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اوراس کے ساتھ کئی ساری چیزوں کا تعلق جوڑا ، بیماری بھی انہیں میں سےایک ہے ۔ انسان جب بیمار ہوتا ہے تو بیماری سے شفاء حاصل کرنے کےلیے مختلف طریقوں کواپناتا ہے۔ ان طریقوں میں سے ایک طریقہ قرآن و سنت کے مطابق تعویذات وغیرہ بھی ہیں ۔تعویذات ،تعویذ کی جمع ہےاور عربی میں اسے تَمِیْمَۃ کہتے ہیں۔زمانَۂ جاہلیت میں جب کسی کو کوئی نظر لگ جاتی تو اہل عرب اس پر کچھ پڑھ کردم کرتے جیسا کہ حضرت عوف بن مالک اَشْجَعی رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: ہم دور جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے تو ہم نے عرض کی یارسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ ارشاد فرمایا: اپنےمنتر مجھے سناؤ۔ ان میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ ان میں شرک نہ ہو۔(صحیح مسلم) بعض اوقات کچھ لکھ کر اس کے گلے میں لٹکا دیتے تھے اسے تَمِیْمَہ کہتے تھے ۔ہمارے معاشرہ میں جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس عمل سے فوائد حاصل کرتی نظر آتی ہے وہیں کچھ لوگ اس کو شرک و بدعت کہتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ آئیے قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی شرعی حیثیت جانتے ہیں ۔
قرآن و حدیث اور تعویذ
تعویذات میں عموماً قرآن پاک کی آیات اور اللہ پاک کے اسماء لکھے ہوتے ہیں اور ان کو پڑھ کر دم کیا جاتا ہے۔لہٰذا تعویذات سے استفادہ کرنے والا قرآن سے شفاء طلب کرنے والا ہے اور یقیناً قرآن کریم میں شفاء ہے چنانچہاللہ پاک کا ارشاد ہے
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۔
ترجمہ: اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے (پ15، بنی اسرائیل:82)۔
یہی مضمون احادیث میں بھی موجود ہے چنانچہ حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَوَسَلَّم نے فرمایا: خیر ُالدواءِ القُرْآن ُ یعنی قرآن بہترین دواہے۔ (ابنِ ماجہ)۔
قارئین یہ بات ذہن نشین فرما لیں کہ ایسے تمام تعویذات جن میں آیاتِ مبارکہ یا اسماء الحسنٰی لکھے گئے ہوں وہ جائز ہیں۔
موجودہ دور میں ہم مختلف نوعیت کے تعویذات و نقوش اور الواح دیکھتے ہیں۔ اور ہر ایسی چیز کو جو بظاہر تعویذ جیسی دکھائی دے اُس کو معتبر مان کر استعمال میں لے آتے ہیں۔ ہمیں یہ پہچان لازمی کر لینی چاہئے کہ کونسا ، تعویذ ، نقش یا لوح جائز ہے اور اُسے استعمال میں لانا چاہیئے یا نہیں۔
آیات و اسماء والے تعویذ و نقش
یعنی کسی کاغذ پر کچھ آیات یا اسماء لکھے ہوں اور واضح پڑھ کر تصدیق کی جا سکتی ہو کہ یہ قرآن کی کوئی آیات ہے یا اللہ تارک و تعالیٰ کے اسماء مبارکہ میں سے کوئی اسم تو ایسے تعویذات کی یہ صورت ہوگی۔

ایسے تعویذ میں آیتِ مبارکہ واضح پڑھی بھی جا سکتی ہے اور قرآنِ کریم میں تلاش کر کے مخارج دیکھے بھی جا سکتے ہیں ۔ ایسے تعویذات گلے میں باندھنے، بازو پر باندھنے اور پینے کے کام بھی آتے ہیں۔
اس ہی طرح کے ایک تعویذ اگر نقش میں لکھا جائے تو اس کی شکل یہ ہو گی۔ اس کو بھی جائز سمجھا جائے گا۔

اعداد والے نقوش
اگر کوئی نقش کسی آیت یا اسماء کے اعداد پر علم النقوش کے اصولوں پر بنایا جائے تو اُس کی شکل یہ ہوگی، اور عددی نقوش در حقیقت غیر مسلموں کے لئے تشکیل دئے جاتے ہیں جہاں یہ گمان ہو کہ وہ پاکی ناپاکی کا خیال نہ رکھ سکیں گے۔ اور آیت و اسماء کی بے حرمتی نہ ہو۔ عددی نقش کی مثال یہ ہے:۔

دھات پر کندہ کئے گئے تعویذ و نقش
جو تعویذات یا نقوش کسی دھات مثلِ تانبہ یا چاندی پر کندہ کئے جاتے ہیں اُن کو “لوح” کہا جاتا ہے۔ اور ایسی الواح اپنے پاس رکھی تو جاتی ہیں مگر اُن کو پہنا نہیں جاتا۔ لیکن بعض امراض میں بیماری کے علاج کے لئے پانی میں ڈبو کر وہ پانی ضرور مریض کو پلایا جاتا ہے اور وہ الواح کاغذ پر مخصوص سیاہی سے لکھے جاتے ہیں۔ اگر کوئی خاص لوح ہے جو کسی اسم، آیت، سورۃ یا دعا پر تیار کی گئی ہے تووہاں اُس لوح کی منسوبیت اُس اسم، آیات ، سورۃ یا دعا سے کی جائے گی، جیسے لوح آیت الکرسی، لوح سورۃ اخلاص ، لوح نادِ علیؑ وغیرہ۔ اس طرح کسی بھی قسم کی لوح مقصد کے مطابق تشکیل دی جا تی ہے، لیکن الواحِ سیارگان کے سلسلے میں عاملین و کاملین اور اہلِ تصوف ۔۔۔ تینوں کا مؤقف الگ ہے۔ الحمد اللہ ! ہمارے یہاں جتنے بھی تعویذات و اعمال و نقوش اور الواح ہم تک پہنچے ہیں وہ کاملین و اہلِ تصوف کی بارگاہ سے پہنچے ہیں۔ دورِ حاضر میں خواتین و حضرات شوقیہ بھی ایسے تعویذات و نقوش کندہ کروا کر اپنے پاس رکھتے ہیں۔ خواتین ایک لاکٹ میں بنوا کر حفاظتی تعویذ بھی رکھ لیتی ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کے ہم اپنے گھروں میں بازار سے آیت الکرسی اور چہار قُل شریف کے فریمز خرید کر اپنے گھروں کی دیواروں پر آویزاں کرتے ہیں۔ تو اگر بازار سے اسطرح کے کندہ کاری اور خطاطی والے فریمز خرید کر اپنے گھر میں آویزاں کرنا جائز ہے تو چاندی اور تانبہ پر بنوا کر اپنے پاس رکھنا بھی جائز ہی خیال کیا جائے گا۔ بشرط کہ وہ الواح و نقوش خاص الخاص قرآنی آیات و اسماء مبارکہ پر مشتمل ہوں۔
مشہور تابعی سعید بن مسیب،ابن سیرین اور تعویذ
حضرتِ سیِّدُنا سعید بن مسیب رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : قرآنی تعویذ کو کسی ڈبیہ یا کاغذ میں لپیٹ کر لٹکانے میں کوئی حرج نہیں، امام ابن سیرین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ قرآن میں سے کچھ لکھ کر کسی انسان کے گلے میں ٹکایا جائے (البحر المحیط) ۔
تاثیر میں اذنِ الٰہی کو شرط جاننا ضروری ہے
دسویں صدی کے مجدد حضرت ملا علی قاری ؒ (متوفی:۱۰۱۴ھ) اس حدیث پر لکھتے ہیں کہ و ھٰذا أصل في تعلیق التعویذات التي فیھا أسماء اللہ تعالٰی ( مرقات ،ج: ۵، ص: ۲۳۶)۔
ا س سے واضح ہوتا ہے کہ وہ تعویذات جو اسمائے الٰہیہ اور کلماتِ مبارکہ پر مشتمل ہوں ، اپنے اندر ایک روحانی ا ثر رکھتے ہیں اور اس سے مریضوں کا علاج کرنا علاج بالقرآن ہی ہے۔ ہاں! وہ تعویذات جو شرکیہ الفاظ پر مشتمل ہوں‘ ان کی قطعاً اجازت نہیں۔ جن روایات میں تمائم اور رُقٰی کو شرک کہا گیا ہے، اس سے مراد اسی قسم کے دم اور تعویذ ہیں، جن میں شرکیہ الفاظ و اعمال کا دخل پایا جائے۔ ’’التمائم‘‘ میں ’’ الف لام‘‘ اسی کے لیے ہے ، اور جو دم اور تعویذ اس سے خالی ہوں، ان کا استعمال جائز ہے اور اس کے روحانی اثرات ثابت ہیں۔
تعویذات میں مؤکلان ، جنات، اور طلاسم
ایسے تمام تعویذات و نقوش و الواح جن میں آیات و اسماء کے ساتھ یا اُن کے بغیر بھی کسی بھی قسم کے مؤکل ، خدام یا طلسم کی شمولیت ہو اُس کو پہننا جائز نہیں۔ اور ایسے تعویذات و نقوش و الواح سے عوام الناس کو بچنا چاہیئے۔ ایسے تمام تعویذات مشکلات سے خلاصی نہیں بلکہ مسائل اور رجعتوں کے اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔
