مسلمانوں میں صوفیاء کا زمانہ شروع ہو چکا تھا۔ اس شوق میں مختلف قسم کی ریاضتیں اور مجاہدے کئے جا رہے تھے کہ حواس کے حجابات درمیان سے اُٹھا کر خوارق قوتیں پیدا کی جائیں۔ چنانچہ اس فن کی کتابیں اور اصطلاحیں مرتب کی گئیں۔ اور وہ کمال پیدا کیا کہ سابقین کو پیچھے چھوڑ دیا۔ امام بونی ؒ کی کتاب “شمس المعارف” اِن مسائل کی ایک ضخیم کتاب سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ حروف کے اسرار و رموز کے لئے کوششیں اور ریاضتیں کی گئیں تو یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ ارواحِ فلکی و طبائع کوکبی مظاہرِ آسمان الٰہی ہیں۔ چونکہ اسرارِ حروف تمام اسماء الٰہی میں جاری و ساری ہیں۔ اس لئے تمام مخلوقات اور مکتوبات میں بھی اسرار حروف پیدا ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اسماء الحسنٰی اور کلماتِ الٰہیہ کے ذریعے سے جن میں پُراسرار حروف شامل تھے عالمِ طبیعت میں تصرف پیدا کرنے میں کمال حاصل کیا، اور اپنی روحانی قوتوں سے حروف کی اُن پوشیدہ قوتوں کا پتہ لگایا۔
حالانکہ صوفیاء میں اس امر کا اختلاف تھا کہ آیا یہ تصرف حروف کے ذریعے سے ہوتا ہے یا کسی اور سبب سے۔۔۔
بعض کے نزدیک حروف اپنے عنصری طبائع کے ذریعہ کام کرتے ہیں اور بعض کہتے تھے کہ حروف جو کچھ کام کرتے ہیں وہ نسبتِ عددی کی وجہ سے کرتے ہیں گویا نسبتِ عددی مؤثر و متصرف ہے۔ اس ہی وجہ سے حروف کی قوتیں معلوم کرنے کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ ابجد قائم کی گئی اور اعداد کی مناسبت سے اُن کی باہمی نسبت و تالیف کا پتہ لگایا گیا۔
مثلاً : ب ک ر عدد ۲ کے مراتب ہیں۔ جس میں پہلا حرف اکائی کا ہے، دوسرا دہائی کا ہے اور تیسرا سیکڑے کا۔
اعداد قائم ہونے کے بعد حروف کی ترقی اور ضعف کا معلوم کرنا آسان ہو گیا۔
مثلاً: ب کی ترقی د میں ہے۔ اس لئے ۲ کی بجائے ۴ ہوگیا۔ اور ب کا نقصان الف میں ہے۔ اس لئے ۲ کی بجائے ۱ رہ گیا۔
یہ علم الحروف کا پہلا زینہ تھا۔ اگر آپ حروف کی قوت معلوم کرنا چاہیں تو ان حروف کے اعداد پر غور کریں۔ یعنی اُن حروف کے اعداد کی جو باہمی نسبت ہے وہی ان قوتوں میں بھی محفوظ ہے۔ علماء نے اسماء الٰہی میں بھی اُن کے اوفاق کے ذریعہ سے نِسبت سَر حرفی یا سر عددی کی گوناگوں حسابی پیچیدگیاں ایسی پیدا کیں اور اتنے دقیق مسائل پیدا کئے کہ عام ذہن کی وہاں تک رسائی ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ علم قبیل ازقیاس نہیں رہا۔ بلکہ اس کا سمجھنا ذوق اور کشف پر منحصر ہے۔ اگر امام بونی ؒ اور ابن عربی ؒ کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو وہ بھی یہی لکھتے ہیں کہ علم الحروف کا سمجھنا مشاہدہ اور توفیقِ الٰہی پر منحصر ہے۔ بقولِ کاش البرنی ؒ انسان کا ذہن اور اس کی رُوحانی قوتیں بہت تیز اور ارفع ہوں تو اِن علوم کو سمجھا جا سکتا ہے ورنہ ناممکن ہے۔
شائید یہی وجہ ہے کہ اِن علوم کو سیکھنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔
وہ لوگ جو اِس میدان میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان حروف اور اسمائے مرکبہ سے عالمِ طبیعت میں تصرف پیدا کرنا اور عالمِ طبع کا اس سے متاثر ہونا بالکل یقینی امر ہے۔جس سے کوئی صاحبِ نظر انکار نہیں کر سکتا۔ اکثر صوفیاء کے عمل سے بھی اس بات کا ثبوت ملتا ہے۔
حروف کی قوت ، فلکی اثرات، اعدادی نسبت اور طلسم کی روحانیت کو کھینچنے والے بخورات کے ذریعہ معمول پر جو عمل کیا جاتا ہے وہ گویا طبائع علوی کو طبائع سفلی میں آمیز کیا جاتا ہے۔
یہ ایک بے معنی طریقہ نہیں ہوتا بلکہ حیرت انگیز حسابی تبدیلیاں اپنے اندر رکھتا ہے۔ ایسی تبدیلیاں جن کی وجہ سے تاثیر کا قائل ہوئے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ نقش یا لوح یا طلسم ایک ایسا خمیر ہوتا ہے جو طبائع اربعہ کے مرکب سے تیار کیا ہوتا ہے اور دوسری طبع میں مل کا اُن کی حالت کو بدل دیتا ہے۔ اس لئے اربابِ عمل کا یہ کام ہوتا ہے کہ افلاک کی روحانیات کو اتار کر اور صورِ جسمانیہ سے ربط دے کر یا نسبت عددیہ سے ملا جلا کر ایک خاص مزاج پیدا کریں۔ جس کا اظہار طبیعت کے بدلنے کے لئے خمیر کا کام دے۔ وہی خمیر جو اجزائے معدنیہ میں کیمیا کرتا ہے۔ جب تک اس امر کے لئے ریاضتیں نہ کی جائیں ، صبر و استقلال سے کام نہ لیا جائے، حروف و اعداد کی قوتوں اور نسبتوں کو نہ سمجھا جائے، افلاک کے مظاہر کواکب کو نہ جانا جائے ، اِن علوم سے کام نہیں لیا جا سکتا۔ چونکہ قدرت نہ ہر چیز میں اثر پیدا کیا ہے اس لئے ان تاثیروں سے فائدہ اُٹھانا انسان کا فرض ہے ، اُس ہی طرح جس طرح امراض کو دور کرنے کے لئے جڑی بوٹیوں کی تاثیروں سے واقف ہونا ضروری ہے۔
حکماء اور صوفیائے کرام میں سے وہ حضرات جو صاحبِ اسماء ہوتے ہیں۔ اُن کا کشف اور مشاہدہ اُن کی ریاضتوں کی بنا پر بہت ارفع ہوتا ہے۔ تصرف اُن کو بابطع بھی ملتا ہے اور اسرار الٰہی حقائق ِ ملکوت کی معرفت بھی ملتے ہیں۔ اکثر صاحبِ اسماء یوں کرتے ہیں کہ قوائے اسماء کو قوائے کواکب سے آمیز کرتے ہیں اور اس حالت میں اسماء الحسنٰی کے ذکر ، نقوش کے پُر کرنے کے طریقے اور اوقات مخصوص کرتے ہیں۔ اوقات کی یہ مناسبت ان لوگوں کو بارگاہِ عمائیہ یعنی برزخ کمالِ اسماء سے حاصل ہوتی ہے اور مشاہدہ اُس کی خبر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے حضرات اعمال میں ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں اور صاحبِ کمال گِنے جاتے ہیں ، لیکن عام لوگ ایسے مشاہدے پر قادر نہیں ہوتے لہٰذا وہ اعمال کے لئے مناسب وقت اور ملزومات کے استخراج میں اکثر غلطیاں کر جاتے ہیں۔ اُن کے پاس اتنا علم نہیں ہوتا نہ ہی اس قدر روحانیت ہوتی ہے جو اُن کو آگاہ کر سکے ، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کامیابیاں شاذ ہی انہیں حاصل ہوتی ہیں۔ اس لئے ہر شائقینِ علم و روحانیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ بعض اسماء الٰہی کی ریاضت کر کے اپنے اندر روحانی قوت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اُن ریاضتوں سے دنیا ہی نہیں بلکہ آخرت بھی بنتی ہے۔
ہر وہ شخص جو حروف کی تاثیرات کا علم جاننا چاہے اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ ہر حرف کی شکل کے لئے ایک شکل عالمِ علوی میں ہوتی ہے جسے ہم کرسی کہتے ہیں۔ پھر اُن میں سے کوئی ساکن ہے، کوئی متحرک ، کوئی علوی ہے تو کوئی سفلی ۔ نیز علمِ سفلی میں اُن کی تین قوتیں ہوتی ہیں۔ پہلی قوت سب سے ادنیٰ اور کمتر ہے۔ وہ حروف لکھنے کے بعد ظاہر ہوتی ہے۔ اس لئے جب حرف لکھا جاتا ہے تو اس کی کتابت عالمِ روحانی میں ہوتی ہے جس کی شکل مخصوص اور مماثل ہوتی ہے۔ جو اُس کی جگہ عالمِ علوی میں لکھا ہوتا ہے۔ پس جب یہ حرف اپنی قوت ظاہر کرتا ہے تو اس کی قوتیں عالمِ اجسام میں مؤثر ہوتی ہیں وہ لوگ جو اس مسئلہ کو آسانی سے سمجھنا چاہیں اُن کو ٹیلی ویژن کا نظریہ سامنے رکھنا چاہیئے۔ کہ اس کائنات میں ایسے ایٹم موجود ہیں جو ہر لمحہ ہر حرکت کی تصویر اٹارتے رہتے ہیں۔ لازمی جب ہم حرف لکھتے ہیں تو اُن کی شکل فضا میں ایٹم اتار لیتے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا مظہر قمر ہے۔ جو قدرت کا عظیم ترین ٹیلی ویژن سیٹ ہے۔ جب قمر منزل اول شرطین میں داخل ہوتا ہے تو حرف الف کی روحانیت اجاگر ہوتی ہے، اُس وقت کوئی حرف الف کا عمل بہ مطابق مزاج منزلِ شرطین اختیار کرے گا تو لازمی معمول پر اس کا اثر پڑے گا۔بالکل اس ہی طرح ۲۸ حروف قمر کی ۲۸ منازل سے منسوب کئے گئے ہیں، اور اُن سے جس قسم کی روحانیت عالمِ سفلی میں متصرف ہوتی ہے اُن کا ذکر اکثر کتبِ عملیات میں موجود ہے۔
جاننا چاہیئے کہ حروف کی دوسری قوت ہیئتِ فکریہ ہے۔ یہ تصرف روحانیات سے ظاہر و صادر ہوتا ہے۔ اس لئے ایک طرف تو روحانیات میں مؤثر ہے اور دوسری جانب عالمِ اجسام میں۔
تیسری قوت حرفیہ وہ ہے جس کو باطن یعنی قوت نفسانی اُسے تکوین میں جمع کرے۔ اس لئے قبل از نطق اس کی صورت ذہن میں نقش ہوتی ہے، اور بعد از نطق حروف میں منتقل ہو جاتی ہے۔ پھر قوتِ نطق میں ان حروف کی طبیعتیں بھی ہیں، جو مولدات میں ہوتی ہیں۔
کیونکہ اس علم سے انسان میں خوارق عادات پیدا ہوتی ہیں۔ اس لئے ان اسرار و رموز کی پوشیدہ قوتوں کو اصطلاحاً طلسم کا نام دیا جاتا ہے۔ طلسم کا مطلب یہ بتایا گیا ہے کہ معین سے مدد لی جائے اور عالمِ طبیعہ میں تصرف کیا جائے۔ مثلاً حروف سے یا اعداد سے یا کواکب کی حرکات سے یا وقت کی سعادت اور نحوست سے یا اُن کے امتزاج سے تصرفانہ حکمت کو حاصل کیا جائے، یا اسماء الٰہی اور آیات میں جو پراسرار مخصوص حروف ہیں یا دعائیں ہیں اُن سے مخصوص اوقات میں کام لیا جائے۔
حروف کی قوتوں کو اعداد سے جانا جاتا ہے۔حروف کو اعداد میں مرتبہ دینا اور اُسے خاص حسابی عمل میں لانے اور لکھنے کے طریق کو نقش یا لوح بنانا کہتے ہیں۔ نقش ایک ایسا عمل ہے جس سے مراد حروف کی طاقتوں کو مقرر کر کے اعداد میں مخفی کر دینا ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ علوم کتابوں سے سمجھے اور سیکھے نہیں جا سکتے۔ تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ عاملین و کاملین نے اِس علم کو مشکل بنا کر پیش کیا۔ تاکہ صرف اہل حضرات ہی اس کو کسی کامل استاد سے سیکھ کر فوائد حاصل کر سکیں۔
اس ہی لئےروحانیت و علومِ مخفیہ کو سیکھنے کے لئےکسی کامل اور ماہر استاد کا ہونا ضروری ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ فقط زکاتوں اور چلہ کشی کے معاملات نہیں بلکہ خالص اور قوی اجازتوں کا ہونا بھی لازمی امر ہے، اِس عمل میں کامیابی بھی ملتی ہے اور رجعتوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی وضاحت طلب ہے کہ صرف علم النقوش کی بنیادی حیثیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ تاہم اِن سطور میں بھی بہت سے راز پوشیدہ تھے ۔ ہمیں تحقیق سے کام لینا چاہیئے، زمانے کے اعتبار سے تجربات کو بھی سامنا رکھنا چاہیئے۔ صوفیائے کرام ، علماء کرام اور دیگر کاملین و اکابرین کی رائے کو بھی مد نظر رکھنا چاہیئے۔