ہر پھول کا رنگ اور خوشبو الگ ہوتی ہے۔ اثر رنگ میں بھی ہوتا ہے اور خوشبو میں بھی۔خوشبو محبت و الفت جیسے لطیف و پاکیزہ جذبات ابھارنے کے علاوہ جسم کے مختلف اعضا پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔
اس زمین پر قدرت کی تخلیق کردہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی رنگ اور بو ہے۔ خوشبو کا نام سن کر تروتازگی محسوس ہوتی ہے۔ خوشبو طبیعت کا بو جھل پن دور کرکے مزاج میں تازگی اور فرحت پیدا کرتی ہے۔ اس سے دماغی تھکن دور ہوتی ہے تو موسم کی کلفتوں میں بھی کمی آجاتی ہے۔ مسلمان سائنس دانوں نے بے شمار خوشبودار پھولوں کے عطر تیار کیے جو موسم کے اعتبار سے استعمال ہوتے تھے۔ہماری ماضی کی ثقافت میں گرمیوں‘ جاڑوں‘ برسات اور بہار کے عطر مخصوص ہوتے تھے۔ طب مین ان کا استعمال مختلف امراض کیلئے تیار ہونے والی دواؤں اور شربتوں وغیرہ میں اب بھی ہوتا ہے۔
صندل‘ گلاب‘ الائچی وغیرہ کے شربت اور عرق آج بھی استعمال ہوتے ہیں۔ کیوڑا اور بیدمشک کے عرق گرمی کے بخاروں کا مؤثر علاج ہوتے
ہیں۔ حکیم اجمل خان انجائنا کے مریضوں کیلئے قلب کے مقام پر عمدہ قسم کے عطر گلاب کی مالش بھی تجویز کرتے تھے۔ خوشبو اور پھولوں سے علاج کا طریقہ بہت قدیم ہے۔ طب میں شربت اورعرقیات کے علاوہ مختلف پھولوں کے گلقند بھی مختلف امراض کیلئے استعمال ہوتے ہیں‘ مثلاً گلقند املتاس‘ گلقند بکائن‘ گلقند بنفشہ‘ گلقند گڑھل‘ گلقند گلاب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ہمارے اطباء خوشبووں سے علاج کے ماہر ہوتے تھے۔ مشہور ہے کہ لکھنو کے ایک بیمار شہزادے نے صرف خوشبودار دواؤں سے علاج پر اصرار کیا تو باکمال شاہی طبیب نے صرف مختلف اثر کی حامل خوشبودار دواؤں سے ہی شہزادے کوصحت یاب کیا۔ شہید پاکستان حکیم محمد سعید رحمۃ اللہ علیہ بھی بتاتے تھے کہ انہوں نے اپنے قلب کی تکلیف کا علاج صرف آرام اور عرق گلاب کے استعمال کیا تھا۔ گل پوشی کے دوران الگ ہونے والی گلاب کی پنکھڑیاں وہ اکثر چبالیا کرتے تھے۔ دیگر تمام علاجی طریقوں کے برخلاف خوشبوؤں کا علاج سب سے زیادہ پسندیدہ خوش گوار‘ فرحت اور صحت بخش بھی ثابت ہوتا ہے۔ خوشبودار شربت‘ گلقند اورعرقیات کے اندرونی استعمال کے علاوہ مختلف تکالیف کیلئے ان کا بیرونی استعمال بھی بہت مفید ہوتا ہے۔ مختلف قسم کے خوشبودار تیل بھی اس مقصد کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ انہیں‘ سر پیشانی یا جسم پر لگانے سے یہ اپنے مخصوص شفائی خصوصیات کی وجہ سے مریض کو صحت یاب کردیتے ہیں۔
ختلف مذاہب میں خوشبو کی خاص اہمیت ہے۔ اسے ہمیشہ معابد، مندروں اور عبادت گاہوں میں استعمال کیا گیا۔ قدیم یونانی خوشبو دار جڑی بوٹیوں کو خدائی تحفہ تصور کرتے تھے۔ اہل بابل مقبرے اور معابد تعمیر کرتے وقت اینٹوں کے مسالے میں خوشبو شامل کرتے۔ ہندوستان میں صندل کی لکڑی کو نہایت مقدس سمجھاجاتاہے۔
خوشبویات کو باقاعدہ طور پر بطور علاج استعمال کرنے کی ابتداء مسلم طبیبوں نے کی۔ ان میں پہلا نام ابوبکر محمد زکریا الرازی کا آتا ہے جنہوں نے طبی سائنس پر 200 سے زیادہ کتب و رسائل تحریر کیے، کہا جاتا ہے کہ بقراط نے طب کا آغاز کیا، جالینوس نے طب کا احیاء کیا، رازی نے متفرق سلسلہ ہائے طب کو جمع کر دیا اور ابن سینا نے تکمیل تک پہنچایا۔ حکیم ابن سینا نے بھی خوشبویات اور ان کے عرقیات اور بھاپ سے کئی علاج پیش کیےہیں۔ تاج برطانیہ کے دور عروج میں ایک مرتبہ لندن میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی تو لوگوں نے مالٹے اور لونگ کا خوشبو دار پیسٹ بنا کر استعمال کرنا شروع کردیا تھا تاکہ طاعون کی بدبو اور انفیکشن سے بچ جائیں۔ اس دوران مشاہد ہ کیا گیا کہ جو لوگ پرفیوم فیکٹریوں میں کام کرتے تھے وہ بھی اس وبا سے محفوظ رہے۔ ان مشاہدات کے بعد ماہرین نے خوشبو سے علاج پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا۔
اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں اروما تھراپی پر کام ہورہا ہے۔ اس کے ذریعے جوڑوں کے درد، سینے کے امراض، سردی لگنا، کھانسی، نزلہ و زکام، بےچینی، تھکاوٹ، بدہضمی، دمہ، ٹینشن، جلن، خارش، ایگزیما، گلے کے مسائل، خشکی، سوجن، پیٹ کے درد، الرجی، سر اور جسم کے درد، دانت کا درد، جگر کے امراض، پتھری، بےخوابی وغیرہ میں آرام دیکھا گیا ہے۔
