اصطلاحاتِ جفر

لِسان الغیب

انسان حیوانِ ناطق ہے۔ نطق سے عقل پیدا ہوتی ہے، صرف نطق و عقل ہی  ایسے ملکات شریفہ ہیں کہ جن کے باعث انسان کو اشرف المخلوقات کا رتبہ حاصل ہوا ، انسان کے نطق نے حروف پیدا کئے اور عقل نے حروف سے الفاظ و کلمات۔حروف کی تفصیلات کو ابجد کہتے ہیں۔ابجد حروف کی تریب کا نام ہے، جس کے تحت حروف کی مختلف مقادیر مقرر کی جاتی ہیں اور ان مقادیر کے لحاظ سے سوالات کے جوابات کا استخراج کیا جاتا ہے۔ کل ابجدیں اٹھائیس ہیں ۔ ان کی تعداد ۲۸ منازلِ قمر کی رعایت سے ہے۔ یہ ۲۸ ابجدیں اکابر جفَّارین کے سینہ ہائے بے کینہ میں محفوظ ہیں۔ اصطلاحِ جفر میں ان ۲۸ ابجدوں کو لسان الغیب کہتے ہیں۔

ان ابجدوں میں پہلی دو ابجدیں قمری اور شمسی کہلاتی ہیں۔

 قمری ابجد اپنے استعمال و معرفیت کے لحاظ سے جملہ اٹھائیس ابجدوں میں مقبول ہے۔ اُسے اُم الاباجد یعنی ابجدوں کی ماں بھی کہتے ہیں کہ یہ ابجد تمام ابجدوں کی اصل بنیاد بھی ہے۔

اصطلاحاتِ  جفر

علم الجفر کے حصہ اخبار میں استخراجِ مستحصلات کے اُن قواعد کو سمجھ لینا چاہیئے جن کے ذریعہ کسی سوال یا درپیش مسئلہ کا حل بذریعہ مستحصلہ حاصل کیا جاتا ہو۔ علم الاخبار علم جفر کی نہایت ہی اعلیٰ قسم ہے۔ اس حصہ کا انسانی قوتِ متخیلہ اورقوتِ حافظہ سے گہرا تعلق ہے۔ چنانچہ  جفار کی ہر دو قوتیں جس قدر عمدہ ہوں گی مستحصلہ اسی قدر واضح اور عمدہ ہوگا۔

مستحصلہ جفر
جس طرح ہر ذی روح اپنے دو وجود رکھتی ہے ایک ظاہری اور دوسرا باطنی ، اس ہی طرح سوال ِ سائل کے بھی بعینہ دو وجود ہوتے ہیں۔ سوال کا فقرہ یا بندش سوال کا ظاہری جسد ہے اس کا باطنی جسد اس میں موجود روح ہے اور اُس یہی روحِ سوال ہر سوال کا حل ہے۔ سوال کے جسد ظاہری سے مختلف قواعد کے ذریعے سے نئے حروف یا اعداد حاصل کئے جاتے ہیں ۔ جو سوال کا یقینی جواب ہوتے ہیں۔ یہی نئے حاصلہ حروف اصطلاحِ جفر میں مستحصلہ جفر کہلاتے ہیں۔

بندشِ سوال
جفر کے حصہ اخبار میں بندشِ سوال کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ دراصل بندشِ سوال ہی جواب کے گویا ہونے کی ضامن ہے۔ سوال اگر مہل اور بے ربط ہوگا تو جواب بھی یقیناً اُلجھا ہوا ہوگا جسے صرف ایک مشاق جفار ہی سلجھا سکتا ہے۔ لہٰذا سوال قائم کرنے میں بڑی احتیاط سے کام لیں۔ سوال میں نہ تو بھرتی کے الفاظ ہوں کہ جن کے بغیر بھی مفہوم ادا ہو سکتا ہو اور نہ ہی اس قدر مختصر کر دیں کہ مطلب پوری طرح واضح ہی نہ ہو سکے۔ درج ذیل امور کو سوال قائم کرتے وقت ذہن میں رکھیں تو ان شاء اللہ کامیابی ہوگی۔

شخصی سوالات حل کرتے وقت نام سائل و نام والدہ سائل ضرور شامل کیا جائے تاکہ خوفِ التباس باقی نہ رہے۔
 سوال میں بالکل سادہ اور روز مرہ بولنے والے الفاظ کا استعمال کیا جائے تو جواب بھی سلیس اور عمدہ ہوگا۔
 بیک وقت سوال میں ایک ہی بات کا پوچھیں ایسا نہ ہو کہ سوال بظاہر ایک ہو مگر تین چار سوالات کا  مرکب بنا دیا جائے۔ مثلاً کسی شخص کی بیماری کا دریافت کرنا ہے۔ یہاں ایک بات کا اور خیال رکھیں کہ بیماری وغیرہ کے سوالات حل کرتے وقت تاریخ، ماہ و سال کا سوال میں ضرور تذکرہ کریں۔ اسطرح موجودہ بیماری کی صورت ِ حال ہی واضح ہوگی۔

مثلاً ہم نے زید بن بکر کی بیماری کا پندرہ اکتوبر دو ہزار پچیس کو معلوم کرنا ہے تو ضروری ہوگا کہ پہلے سوال صرف دریافت ِ بیماری کا ہی بنایا جائے ، بیماری معلوم کر لینے کے بعد علاج و پرہیز کا سوال کیا جائے۔ اگر آپ نے ایک ہی سوال میں دونوں امور جاننا چاہے تو عین ممکن ہے کہ آپ کو ندامت ہو۔ چنانچہ پہلا سوال یوں قائم ہوگا:۔
یا علیم: زید بن بکر پندرہ اکتوبر دو ہزار پچیس  عیسوی کو کونسا مرض لاحق ہے؟
۔ نام بمعہ نام والدہ اس شخص کا لیا جائے گا جس کی ذات سے متعلق سوال ہوگا۔ خوہ وہ سائل خود ہو یا کوئی دوسرا شخص۔
۔ سوال کی نوعیت کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔ یاد رکھیں کہ سوال کو نوعیت کے اعتبار سے دو اقسام میں منقسم کیا گیا ہے۔ مرکزی سوال اور محوری سوال۔

مرکزی سوالات

ایسے سوالات جن میں حالات و واقعات کی کوئی تبدیلی واقع نہ ہوتی ہو یا سوال کسی ایسی چیز سے متعلق ہو جو اپنا ثانی نہ رکھتی ہو، مرکزی کہلاتے ہیں۔مثلاً کعبہ کہاں ہے؟ آسمان کا رنگ کیا ہے؟ وغیرہ۔۔
ایسے سوالات میں نام سائل یا نام ِ والدہ کی شمولیت ضروری نہیں ہوتی۔

محوری سوالات
مرکزی سوال کے برعکس ایسے سوالات جن کے حالات و واقعات وقت اور زمانہ کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ یا سوال کسی ایسی چیز سے متعلق ہو جو اپنا ثانی رکھتی ہو ۔ سوالات کی یہ قسم محوری کہلاتی ہے۔ محوری سوالات میں سائل کی تخصیص اور تاریخ ماہ و سال کا تعین کرنا از حد ضروری ہے ورنہ سوال نا مکمل ہوگا۔

اگر مندرجہ بالا امور کو سوال قائم کرتے وقت آپ نے سامنے رکھا تو ان شاء اللہ آپ کا سوال عمدہ اور جواب مدلل اور سلیس ہوگا۔

آپ علم الجفر کی قدیم کتب کا مطالعہ کری تو ٓپ کو معلوم ہوگا کہ علمائے جفر نے علم جفر کو عام لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کے لئے اس قدر علمی اور فنی اصطلاحات کا استعمال کیا ہے کہ  بیان کیا گیا ہر فقرہ  مشکل ترین ہے۔ ان فنی اصطلاحت کی ایک علیحدہ لغت تیار ہو سکتی ہے مگر یہاں صرف ایسی اصطلاحات کا بیان کیا جائے گا جن کو ایک عام انسان یا طالب علم ِ جفر سمجھ سکے  انکو خوب ذہن نشین کر لیا جائے تاکہ آگے بیان کردہ قواعد کو آپ بخوبی سمجھ سکیں۔

بسط حرفی
سوال کے فقرہ کو جدا جدا حروف میں لکھنا بسط حرفی کہلاتا ہے۔ مثلاً سوال ہے کہ :۔
بادل کیا ہے؟
اسے بسط حرفی کیا تو یہ صورت بنی۔

ب ا د ل ک ی ا ھ ی

تخلیص

سوال کے اصل فقرہ کے حروف کو خالص کرنا تخلیص ِ حرفی کہلاتا ہے۔ سوال کے اندر موجود مکرر حروف ختم کر کے صرف پہلی بار آنے والا حرف لیا جاتا ہے۔ چنانچہ درج بالا سوال کی تخلیص کی صورت یہ ہوگی۔
ب ا د ل ک ی ھ
یعنی (کیا) میں جب دوبارہ الف آیا تو اسے ساقط کر دیا گیا۔

تکسیر صدر موخر

صدرموخر تکسیر کی ایک قسم ہے۔ جس کا مطلب حروف کو اسطرح گردش دینا ہوتا ہے کہ مطلوبہ سطر کا پہلا حرف لیں پھر آخر سے ایک حرف لیں پھر شروع سے ایک حرف اور حسبِ سابق آخر سے تاکہ بوری سطر کے حروف گردش کھا جائیں۔ مثلا ہم نے اس سطر کو صدر موخر کرنا ہے۔

ح ی ض ی ا ھ ن س ل ر م م ک
ح ک ی م ض م ی ر ا ل ح س ن

تکسیر موخر صدر
یہ تکسیر صدر موخر کے برعکس ہے۔
مثلاً سطر مطلوبہ یہ ہے:۔
ا ب ج د ھ
موخر صدر کے بعد یہ سطر بنی۔۔۔
ھ ا د ب ج
ہم رُتبہ حروف
ابجد قمری میں ایسے حروف جو بلحاظِ اعداد مفردہ ہم عدد ہوں ہم رتبہ کہلاتے ہیں۔اس ترتیب سے ابجد ایقغ وضع ہوتی ہے۔ ذیل میں ہم رتبہ حروف کی جدول پیش کی جاتی ہے۔ ہر کھڑی سطر کے تین یا چار حروف آپس میں ہم رتبہ ہیں:۔

ذرا غور فرمائیں عدد ایک کے تحت  ’ا ی ق غ‘ چار حرف آپس میں ہم رتبہ ہیں۔ کیونکہ ابجد میں الف کا عدد ایک ہے۔ ’ ی‘ کے ابجد میں دس عدد مقرر ہیں جب صفر گرا دیا جائے تو ایک عدد باقی رہ جاتا ہے اس ہی طرح ’ ق‘ کے ابجد میں ۱۰۰ عدد ہیں۔ جب دونوں صفر گرا دیں تو مفرد عدد ایک بچا بالکل اس ہی طرح (غ) کے ابجد میں ۱۰۰۰ اعداد ہیں، صفر ہتانے پر ایک باقی بچا ، اس طرح چاروں حروف مفرد ایک کے تحت ہو گئے۔

نظیرہ

ابجد قمری میں ہر حرف سے پندرھواں حرف نظیرہ کہلاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ ابجد کو چودہ حروف کی دو سطر میں عین اوپر نیچے لکھیںتو ہر حرف کا نظیرہ اس کے اوپر یا نیچے کا مد مقابل ہوگا۔ آپ ابجد پر گور کریں اور ان ھروف کے نظیرہ پر غور کریں۔ مثلا حروف یہ ہیں:۔

ظ ت ع ع ر و
م ح ب ب و ر : نظیرہ

ہم نے (ظ) کو نظیرہ دینا تھا ۔۔۔ (ظ) سے ابجد مین پندرہ گنے تو (م) حاصل ہوا۔ اس ہی طرح تمام حروف پر عمل کیا۔

ترفع

تر فع کے معنی بلندی کے ہیں۔ بعض دفعہ حروف کو ترفع کرنا ہوتا ہے اس لئے اس کا مفصل ذکر کرنا بیجانہ ہوگا۔

یوں تو ترفع کی کئی اقسام ہیں۔ مگت ہم یہاں چند ترفعات کی تشریح کرنا  ضروری سمجھتے ہیں۔ ترفع حرفی، ترفع افرادی، ترفع ازواجی، ترفع عنصری۔

ترفع حرفی: کسی ھرف کو ترفع حرفی کرنا ہو تع ابجد میں ایک درجہ بڑھاتے ہیں جیسے ب کا ترفع ج وغیرہ۔

ترفع افرادی: مطلوبہ حرف سے ایک حرف چھوڑ کر آگے والاحرف لینا ترفع افرادی ہے۔
ترفع  زواجی: مطلوبہ حرف سے دو حرف بھوڑ کر آگے والا حرف لینا ترفع زواجی ہے۔
ترفع عنصری: جس حرف کو ترفع عنصری کرنا ہو اسے معلوم کریں کہ کس عنصر کا ہے جس عنصر کی سطر میں ہو اس میں ایک حرف کا درجہ بڑھا کر حرف لیا جائے، یعنی الف کا ترفع عنصری ھا ہے۔

 حروف کو عناصر کے اعتبار سے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو یہ ہیں:۔

 

حروفِ مستحصلہ کو ناطق کرنا

لفظ ناطق۔ نطق سے نکلا ہے ، نطق کے معانی بولنے کے ہیں۔ حروفِ مستحصلہ کو ناطق کرنا علم جفر کا نہایت ہی اہم اور ادق مسئلہ ہے۔ عربی زبان میں سوال و جواب کے لئے ایسے جفری قواعد موجود ہیں جن کی سطر مستحصلہ میں حروف غیر ارادی طور پر خود ناطق آجاتے ہیں۔ مگر اردو زبان میں سوال و جواب کے لئے حروف کو تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جب حروف مستحصلہ حاصل ہو جاتے ہیں تو غور کر کے دیکھیں کہ چند حروف کو ملانے سے کوئی بامعنی لفظ بنتا ہے یا نہیں۔ اگر تو یہ حروف خود لفظ بنائیں تو بہتر ہے ورنہ انھیں قاعدہ میں بتائے گئے امدادی حروف سے تبدیل کر دیں۔ کونسا حرف تبدیل ہو گا؟ اور کونسا حرف خود رہے گا؟ اس کے متعلق کچھ نہیں بتلایا جا سکتا ، البتہ فقرہ یا لفظ آپ کو خود بتلائے گا کہ میرے فلاں حرف کو اگر آپ تندیل کرین تو یہ لفظ بنے گا۔ یہی بات علم اجفر کو ادق بناتی ہے۔ اس کے لئے کافی مشق کی ضرورت ہے۔

سوال کے اعداد کا حصول
بعض قواعد میں سوالِ سائل کے اعداد معلوم کرنا ہوتے ہین جس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنا پورا سوال بسط ھرفی کر لیں اور ہر حرف کے نیچے ابجد سے اُس ھرف کا عدد لکھتے جائین۔ جب یہ عمل مکمل ہو جائے تو تمام اعداد کو جمع کر کے مجموعہ حاصل کر لین۔ مثلاً ہمارا سوال ہے، روح کیا ہے؟

اس کے ہم نے اعدادِ قمری معلوم کرنا ہیں ۔ چنانچہ سوال کو بسط کیا:۔

ابجد قمری پہلے ہی درج کی جا چکی ہے اس میں دیکھیں (ر) کے اعداد ۲۰۰ ہیں اور (و) کے ۶  ہیں۔ اس ہی طرح تمام حروف کو اعداد دے کر پھر میزان حاصل کیا:۔
۲۰۰+۶+۸+۲۰+۱۰+۱+۵+۱۰=۲۶۰

ایک بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ اگر قاعدہ مستھصلہ کے مطابق  میزان اعداد کسی دوسری ابجد سے حاصل کرنا ہے تو اُس ہی ابجد کو استعمال میں لائیں ۔ حاصلہ میزان کو اصطلاحِ جفر میں جمل کبیر یا مدخل کبیر بھی کہتے ہیں۔

مداخلِ اربعہ

مداخل کی چار اقسام ہیں جنہیں اصطلاحِ جفر میں مدخل کبیر، مدخل وسیط، مدخل صغیر ، مدخل اصغر کہا جاتا ہے۔

مدخل کبیر: سوال سے حاصل کل اعداد کا مجموعہ ہے ۱۲۰۴، یہ مدخل کبیر ہے۔
مدخل وسیط: اس کا طریقہ یہ ہے کہ مدخل کبیر کے دائیں طرف کے دو ہندسوں کو آپس مین جمع کر کے ایک عدد بنا لیا جاتا ہے  اور باقی اعداد بعینہ موجود رہتے ہیں۔ مثلاً مندرجہ بالا مدخل کبیر تھا  ۱۲۰۴۔
دائین طرف سے ۴ اور صفر کو جمع کیا  تو ۴ حاصل ہوا  اسطرھ مفرد عدد ھاصل ہوا۔ (اگر مرکب اعداد بنین تو دہائی کو اگلے ہندسہ مین جمع کر دیتے ہیں) اس طرح مندرجہ بالا مدخل کبیر کا وسیط ۱۲۴ ہوا۔
مدخل صغیر: مندرجہ بالا طریوہ کے مطابق دائین طرف سے ایک درجہ اور گھٹا دین جیسے ۴+۱۲  تو ۱۶ ہوئے، یہ مدخل صغیر ہوا۔
مدخل اصغر: حسبِ سابق ایک درجہ اور گھٹائیں۔۔۔مثلاً ۶+۱ کو جمع کیا تو ۷ بنا ، اب یہ مدخل اصغر کہلائے گا۔

اقسامِ حروف

 حروفِ مکتوبی

ابجد کے تمام حرفوں کے عدد ۵۹۹۵ ہیں۔ یہ حروف مکتوبی کہلاتے ہیں۔ حصولِ اخبار یا تقویمِ آثار کے سلسلے میں جہاں یہ لکھا ہو کہ اعداد و حروف مکتوبی نکالو تو وہاں وہ حروف اسی طرح لکھے جائیں گے۔ جس طرح ابجد میں ہیں اور اُس ہی کے عدد لئے جاتے ہیں۔ مثلاً کہا جائے کہ اسم  احمد کے مکتوبی اعداد نکالو تو اس طرح حروف لکھ کر نکالیں گے۔

(احمد) ا ۔ ح م ۔ د۔۔۔ میزان ۵۳

اور اس ہی عمل کو اصطلاح جفر میں بسط کرنا ، مفرد کرنا کہتے ہیں۔ یعنی کسی اسم یا جملے کے حروف کو علیحدہ علیحدہ لکھنا جیسا  کہ ہم نے اسم (احمدؐ ) کو جُدا جُدا لکھا ہے۔

حروف ملفوظی

لفظ جیسے زبان سے ادا ہوتا ہے اور پڑھا جاتا ہے اس کو اس ہی طرح لکھنا ، مثلاً اگر کہیں لکھا ہو کہ  لفظ (احمدؐ ) کو ملفوظی کرو تو ملفوظی کی صورت یہ ہوگی۔

الف۔ حا۔ میم ۔ دال ۔
سمجھ لیں کہ ملفوظی کرنے میں چار حروف سے گیارہ  حروف پیدا ہو گئے اور مکتوبی کے اعداد جہاں ۵۳ تھے اب ۲۴۵ ہو گئے۔

اعدادِ مکتوبی سے حروف (ج) اور (ن) پیدا ہوتے ہیں۔
اور ملفوظی سے ھ۔م۔ر پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی مکتوبی اور ملفوظی میں زمین و ٓسمان کا فرق پیدا ہو گیا ۔اس قانون کے ماتحت ابجد کے اٹھائیس مکتوبی حروف ِ ملفوظی ۷۲ بن جاتے ہیں اور نقطے بجائے ۲۲ کے ۴۲ ہو جاتے ہیں۔ اور اعداد بجائے ۵۹۹۵ کے ۶۷۹۵ ہو جاتے ہیں۔

ابجدِ ملفوظی کی جدول یہ ہے۔

حروفِ سروری
یہ وہ حروف ہوتے ہیں جو ملفوظی ہونے میں صرف دو ہوتے ہیں اور یہ ابجد میں صرف بارہ ہیں۔ ب۔ت۔ث۔ح۔ خ۔ر۔ز۔ط۔ظ۔ف۔ھ۔ی
ان کو ملفوظی کیا جائے تو یہ صورت ہو گی۔
با۔ تا۔ثا۔حا۔خا۔را۔زا۔طا۔ظا۔فا۔ھا۔یا ۔

حروفِ تواخیہ و غیر تواخیہ
حروفِ تواخیہ وہ حروف ہوتے ہیں جن کی صورت یلساں ہو اور صرف نقطے ان میں امتیاز پیدا کرتے ہوں۔ اس قسم کے حروف ابجد میں صرف اٹھارہ ہیں۔ انہیں حروفِ متشابہ بھی کہتے ہیں۔ وہ یہ ہیں:۔
ب ۔ ت۔ث۔ج۔ح۔خ۔د۔ذ۔ر۔ز۔س۔ش۔ص۔ض۔ط۔ظ۔ع۔غ ۔

ان کے علاوہ باقی دس حروف غیر تواخیہ کہلاتے ہیں۔ جنہیں حروف ِ غیر متشابہ بھی کہا جاتا ہے اور وہ یہ ہیں۔
ا۔ف۔ق۔ک۔ل۔م۔ن۔و۔ھ۔ی
حروفِ نورانی و ظلمانی

وہ حروف جو کلام پاک میں بطورِ حروفِ مقطعات استعمال ہوئے ہیں وہ حروفِ نورانی کہلاتے ہیں اور وہ یہ ہیں۔
ا ھ ح ط ی ک ل م ن س ع ص ق ر۔
باقی چودہ حروف ابجد کے ظلمانی ہیں اور وہ یہ ہیں۔
ب ج د و ز ف ش ت ث خ ذ ض ظ غ۔

حروف ناطق و صامت

نقطوں والے حروف کو ناطق اور بغیر نقطوں والے حروف صامت کہلاتے ہیں۔ حروفِ ناطق یہ ہیں۔
ب ت ث ج خ ذ ز ش ص ظ غ ف ق ن ی

باقی تیرہ حروف یعنی
ا ح د ر س ص ط ع ک ل م و ھ صامت ہیں۔
حروفِ ناطق حُب کے لئے اکسیر ہیں اور حروفِ صوامت تفریق اور جدائی کے لئے تیرِ بہدف سمجھے جاتے ہیں۔

سطرِ سوال کی تخلیص
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے سوال کو بسط حرفی کر لیا جائے اور حروف کی مکررات کاٹ دی جائیں ، اسطرح جو حروف باقی رہین گے وہ تخلیص یعنی خالص شدہ کہلائیں گے۔ مثال سے سمجھیں:۔
کیا زید بن بکر بیرون ملک جا سکے گا؟

بسط حرفی
ک ی ا زی د ب ن ب ک ر ب ی ر و ن م ل ک ج ا س ک ی ک ا

عملِ تخلیص
ک ی ا ز د ب ن ر و م ل ج س

یعنی جو جو حرف دو بار آیا ہے اس کو ساقط کیا گیا، جو حرف ایک بار آیا اس کو لے لیا اور وہی حرف جب دوباری ٓئے گا تو ساقط کر دیا جائے گا، اور اسطرح  سطر ِ تخلیص بن گئی۔

یہ تھیں تمام ضروری اصطلاحات جو ہم نے تحریر کر دی ہیں۔ اب حسبِ ضرورت ہر قاعدے کے ساتھ تشریح کر دی جائے گی۔

 

error: Content is protected !!